کورونا وائرس نے دنیا بھر میں لوگوں کو سماجی دوری پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے میں ایک معمر جوڑا ایسا بھی ہے جو روزانہ سرحد کنارے ملاقات کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔
محبت کی اس خوبصورت مثال نے اس جوڑے کو مقامی لوگوں میں مقبول کر دیا ہے۔
ڈنمارک سے تعلق رکھنے والی 85 سالہ خاتون انگا رسموسن اور جرمنی کے 89 سالہ کارسٹن ہانسن جرمنی اور ڈنمارک کی سرحد پر کورونا وائرس کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے مقرر کردہ فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے آپس میں روزانہ بات چیت کرتے اور مشروب شیئر کرتے ہیں۔
اس جوڑے کی پہلی ملاقات 2 سال قبل ہوئی تھی اور گزشتہ ایک سال سے ان کا معمول ہے کہ یہ روزانہ کچھ وقت اکٹھے گزار تے ہیں۔
کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا کے مختلف ممالک نے اپنی اپنی سرحدوں کو بند کیا ہے اسی طرح جرمنی اور ڈنمارک نے بھی گزشتہ دو ہفتوں سے ملک کے داخلی راستوں پر پہرے لگائے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں بھی اس جوڑے نے اپنی ملاقاتوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا اور وہ روزانہ سرحد پر آتے ہیں اور اپنی اپنی سرحدی حدود میں آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کا خوف چاہنے والوں کو ایک ہونے سے نہ روک سکا
دنیا کے چار ممالک جنہوں نے پابندیاں لگائے بغیر کورونا کےخلاف کامیابی حاصل کی
مس انگا اپنے قصبے ” گالے ہس” سے روزانہ کار چلا کر سرحد تک آتی ہیں جبکہ مسٹرہانسن “سودرلوگم” سے بائیک پر سرحد پہنچتے ہیں۔
یہ واحد جوڑا ہے جس نے اس خوفناک وبا کے دوران بھی اپنا خوبصورت رشتہ قائم رکھنے کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔
یہ دونوں شخصیات اس وقت مشہور ہوئیں جب مقامی میئر نے انہیں سرحد پر ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔
کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ دو ہفتوں سے جرمنی اور ڈنمارک کا بارڈر بند ہے۔
جرمنی میں اس وقت کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 63 ہزار سے زائد ہوگئی ہے جبکہ ڈنمارک میں یہ تعداد لگ بھگ 25 سو ہے ۔
کھلی سرحد کی پالیسی کی وجہ سے اس خطے کے لوگوں کو گزشتہ 25 سالوں سے ایک دوسرے کے ممالک میں آنے جانے کی کھلی آزادی میسر رہی ہے تاہم کورونا وائرس کے باعث اب ان قوموں کے مابین سرحد حائل ہو گئی ہے۔