کنگ لئیر، چومسکی اور عمران خان
پی ٹی آئی کے ایم این اے نور عالم کو قومی اسمبلی میں حکومت مخالف تقریر کرنے پر فوری طور پر سزا دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وہ اکثر مہنگائی اور کرپشن پر اپنی ہی حکومت پر برس پڑتے تھے۔ وہ نہ صرف پارلیمانی پارٹی اجلاسوں میں کھلے عام تنقید کرتے بلکہ وہ پی اے سی میں بھی کھل کر حکومت اور بیوروکریسی کے لتے لیتے تھے۔
فورا ایک شوکاز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ حکومت مخالف تقریر کیوں کی۔ اس پر بس نہ کی اور فوری طور پر انہیں پبلک اکاونٹس کمیٹی سے نکالنے کا فیصلہ ہوا جہاں وہ خاصے گرجتے برستے تھے اور حکومت ان کی وجہ سے مشکل میں تھی کہ ایک بندہ ان سے قابو نہیں ہوپارہا تھا۔ جب میں نور عالم کو پی اے سی سے نکالنے کا نوٹفیکشن پڑھ رہا تھا تو مجھے برسوں پہلے جنرل مشرف کے دور کی ایک دوپہر یاد آئی جب میں ایک انگریزی اخبار میں رپورٹر تھا۔
انہی دنوں مشہورعالمی دانشور نوم چومسکی پاکستان آئے ہوئے تھے اور ان کا کنونشن سینٹر میں لیکچر رکھا گیا تھا۔ پورے اسلام آباد میں جوش و جذبہ تھا کہ چومسکی کا لیکچر سنیں گے۔ کارڈ تک لینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ جب میں کنونشن سینٹر پہنچا تو سینکڑوں پاکستانی پہنچے ہوئے تھے۔ اس کرائوڈ میں باقی کے علاوہ سب سے اہم شخصتیں عمران خان اور جمائمہ خان بھی شامل تھے۔
اس دوران مجھے نوم چومسکی سے انٹرویو کرنے کا چند منٹ کا موقع مل گیا۔
میں نے کہا سر آپ کیا خیال ہے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی آپ کو یہاں سننے کیوں آئے ہوئے ہیں بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ سننے سے زیادہ یہ آپ ہو دیکھنے آئے ہیں؟
وہ تھوڑے حیران ہوئے کہ بھلا یہ کیا احمقانہ سوال ہے۔ خیر بولے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
میں نے کہا آپ ان پاکستانیوں کے لیے ایک عجوبہ ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ آپ امریکن ہو کر بھی امریکہ کی پالیسوں کے خلاف مسلسل لکھتے اور بولتے رہتے ہیں اور وہاں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ کوئی سیکریٹ ایجسنی آپ کو آٹھا کر نہیں لے جاتی ۔ امریکن حکومت آپ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بناتی کہ آپ امریکن مفادات کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ آپ کو کوئی وہاں غدار بھی نہیں کہتا نہ آپ پر اتنا کچھ لکھنے اور بولنے کے باوجود ملک دشمنی کے الزامات نہیں لگتے۔
میں نے کہا ایک اور وجہ بھی ہے جو اس پاکستانی ہجوم کی سمجھ سے باہر ہے کہ آپ یہودی ہوتے ہوئے امریکہ کی اسرائیلی پالیسوں کے خلاف بولتے ہیں۔ ہمارے پاکستانی یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہا کہ ایک بندہ یہودی ہو کر بھی یہودیوں کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے اور اسے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے آپ ان سب کے نزدیک دانشور سے زیادہ ایک سپرمین ہیں۔ ایک غیرمعمولی انسان جسے دیکھنے کے لیے یہ سب جمع ہوئے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ مسکرا پڑے تھے.
بڑے عرصے بعد میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بعض لوگ معاشرے اور ملکوں کے لیے necessary evils کا درجہ رکھتے ہیں۔انہیں معاشرے کا ضمیر تک کہا جاتا ہے کہ ان پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی۔ مشہور ادیب اور فلاسفر سارتر نے جب الجزائر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی تو اسے بھی غدار قرار دیا گیا۔ اس وقت فرانسیسی فوجیں الجزائر میں لڑ رہی تھیں۔ سارتر کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے کہ اسے سزا دیں۔ بات فرانس کے صدر ڈیگال تک پہنچی کہ سارتر کو غداری پر سزا دیں کہ یہ الجزائر کے جنگجوئوں کی حمایت کررہا ہے۔ ڈیگال نے کیا تاریخی جملہ کہا تھا۔ سارتر فرانس کا ضمیر ہے، سارتر تو فرانس ہے میں بھلا فرانس کو کیسے ٹرائل کرسکتا ہوں۔
سارتر بھی چومسکی کی طرح فرانسیسی معاشرے کے لیے necessary evil کا درجہ رکھتا تھا۔
مان لیا نہ ہم امریکہ ہیں، نہ یہاں چومسکی ہے نہ سارتر اور ڈیگال لیکن کیا خواب دیکھنے پر پابندی ہے؟ عمران خان کو چومسکی اچھا لگتا تھا لیکن وہ امریکن شہری ہو۔ کوئی پاکستانی وہ رول ادا کرنے کی کوشش مت کرے۔
خان صاحب بات بات پر کہتے ہیں وہ مغرب کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ امریکی پارلیمنٹ میں ایک اہم بل پر ووٹنگ ہونی تھی۔ اوبامہ کے مقابلے پر صدارتی الیکشن لڑنے والے جان میکن کینسر کی وجہ سے آخری اسٹیج پر تھے۔ڈاکٹروں نے منع کیا سفر مت کریں۔ ضد کی اور واشگٹن اپنا ووٹ ڈالنے آئے۔ اور پتہ ہےکس کو ووٹ ڈالا؟ اپنی ہی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالا اور واپس چلے گئے۔
کیا عمران خان نے مغرب سے یہی سیکھا ہے کہ کوئی پارٹی یا حکومت پر تنقید کرے یا آپ کی خوشامد سے انکاری ہو جائے تو اسے عبرت ناک مثال بنا دو جیسے اب نور عالم کو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟
اگر پارلیمنٹ میں کوئی ممبر کھڑے ہو کر اپنی حکومت یا وزیروں پر تنقید ہی نہیں کرسکتا تو وہ پھر کیا وہ اندھوں بہروں کی طرح محض اس ہاوس سے ہر ماہ تنخواہ اور الاونس لینے اور وزیراعظم یا وزیروں کی ہر بات پر واہ واہ کرنے آیا ہے؟
کیا وزیراعظم کو پڑنے والے 176 ووٹوں میں سے کسی ایک ممبر کو بھی یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کھڑے ہو کر ان کی پالیسوں یا فیصلوں پر تنقید کر سکے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ آپ نہ پارٹی کے اندر بول سکتے ہیں نہ پارلیمنٹ کے فلور پر نہ ہی میڈیا پر۔ نور عالم کا قصور یہ تھا کہ وہ اسمبلی اور پارٹی اجلاسوں اور پی اے سی میں کھل کر سب کی کلاس لے رہے تھے۔ اب انہیں سزا کے طور پر پی اے سی سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
عمران خان کا خیال ہے اس طرح وہ نور عالم کے سب راستے روک کر انہیں اپنے آگے جھکا لیں گے۔ مجھے یاد آیا بینظیر بھٹو نے بھی وزیراعظم بن کر نواز شریف کو فوکس کر لیا تھا اور ان کے کاروبار کے پیچھے پڑ گئیں۔ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں جب تک انہوں نے نواز شریف کو وزیراعظم نہ بنوا لیا ۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے اپنی باری پر عمران خان کو ٹارگٹ کیا ۔ ان کے ہسپتال تک کے اشتہارات ٹی وی پر بین کر دیے کہ کہیں عمران خان ہسپتال بنا کر وزیراعظم نہ بن جائے۔
پھر کیا ہوا؟ عمران خان دب گئے ؟ ختم ہوگئے؟
عمران خان کو خوشامدیوں نے بری طرح گھیر لیا ہے۔ روز آپ ٹوئیٹر کھولیں تو ہر دوسرا وزیر عمران خان کی خوشامد کررہا ہوتا ہے۔ سارا دن وزیروں مشیروں میں خوشامد کا مقابلہ ٹوئئٹر پر چلتا ہے۔ شام کو یہ سب وزیر ٹی وی شوز میں عمران خان کی برکتیں قوم کو بتاتے ہیں اور خوشامد کی حد کر دیتے ہیں۔ حیران ہوتا ہوں ایک نارمل بندہ صبح شام اتنی تعریف اور خوشامد کیسے ہضم کرسکتا ہے یا سن یا پڑھ سکتا ہے؟
عمران خان کو خوشامدیوں میں گھرا دیکھ کر مجھے ڈرامہ نگار شکیسپیر کا “کنگ لئیر” یاد آتا ہے جس نے اپنی ایک بیٹی کو محض اس لیے جلاوطن کر دیا تھا جب اس نے باپ کی فرمائش پر اسے یہ بتانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی تھی ۔ بیٹی کا کہنا تھا مجھے اپنے باپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ان سے کتنی محبت ہے۔ جبکہ دو بڑی بیٹیوں نے باپ کی خوشامد کی انتہا کر دی کہ وہ کتنی محبت کرتی ہیں۔ بادشاہ لیئر نے پوری سلطنت ان دو بیٹوں کو دے دی۔ چھوٹی کو کچھ نہ دیا بلکہ گستاخ قرار دے دیا۔ کچھ عرصے بعد ان دو بیٹیوں نے اپنے بوڑھے باپ کو محل سے نکال دیا۔ اکیلا بادشاہ جنگل کو نکل گیا اور اس کے ساتھ صرف ایک وفادار fool تھا جو ان مشکل لحمات میں بادشاہ کو یاد دلاتا رہتا تھا کہ کیسے اسے خوشامد اور خوشامدیوں نے گھیر لیا تھا۔ آج اگر وہ جنگل میں دھکےکھا رہا تھا تو اس کی وجہ اس کا خوشامد پسند ہونا تھا۔
عمران خان کو چاہئے تھا کہ پارٹی کے اندر کچھ necessary evils رہنے دیتے جو انہیں یاد دلاتے رہیں کہ وہ بھی فانی انسان ہیں جو غلطیاں کرسکتا ہے۔
کنگ لئیر خوش قسمت تھا اسے ایک فول مل گیا تھا جو بادشاہ کے منہ پر ہنستے ہنستے سچ کہہ دیتا تھا۔ دربار کے باقی “سیانے” تو خوشامد کرتے تھے۔
عمران خان کے اردگرد ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کنگ لئیر کے “فول” کا کردار ادا کرسکے۔
بادشاہ سلامت خوشامد اور خوشامدیوں سے بچیں ورنہ طوفان میں گھر کر کنگ لئیر کی طرح جنگلوں میں زاروقطار روتے پھریں گے۔