ویسے تصور کریں ہر ہفتے کابینہ اجلاس میں وزیراعظم کے سامنے ECC کے فیصلے لائے جاتے ہوں گندم کم پڑ گئی . باہر سے منگوانے کا ٹینڈر دینا ہے، اگلے ہفتے پتہ چلے چینی کم پڑ گئی ہے. اس سے اگلے ہفتے پھر ECC منٹس لائے جائیں کہ جناب دالیں ملک میں کم پڑ گئی ہیں وہ منگوانی ہیں، چوتھے ہفتے پتہ چلے کاٹن کم ہے دو ارب ڈالرز کی منگوانی ہے اور اوپر سے کھاد نہیں مل رہی تو دو لاکھ ٹن چین سے منگوا لیں۔۔ اور وہ وزیراعظم پھر بھی بلڈرز، ٹھیکداروں، ہاوسنگ سوسائٹیز مالکان میں سوا لاکھ دریائی اور زرخیز زمینیں بانٹ رہا ہو کہ دھرتی کے سینے میں بیج کی بجائے سمینٹ، سریا، بجری ٹھوک دو تو آپ کو کیسا لگے گا؟ آپ کو لگے گا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ اس وزیراعظم کو تو کھیتوں میں کسانوں ساتھ ہونا چاہئے تھا کہ انہیں کھاد نہیں ملی، زراعت مہنگی ہو گئی ہے۔ گندم اس سال پھر کم ہوسکتی ہے۔ وہ وزیراعظم تو اپنے ڈالرز بچانے کے لیے کسانوں کے منت ترلے کرتا پایا جانا چاہئے تھا کہ وہ اپنی زمینیں ہرگز بلڈرز یا ہاوسنگ سوسائٹیز کو نہ بیچیں۔ وہ اپنے باغات اور کھیت بچائیں۔ ایسا وزیراعظم تو نئے سخت قوانین بناتا کہ دریائی، زرخیز یا زرعی زمین ہاوسنگ سوسائئٹیز کو نہیں بیچی جا سکتی۔ بلکہ ایسے وزیراعظم کو فورا ہاوسنگ سوسائٹیز پر پابندی لگا دینی چاہئے تھی تاکہ اس ملک کی زراعت جو برباد ہوگئی ہے اس روکا جائے۔ کابینہ اجلاس میں سوال اٹھتا ہے اربوں ڈالرز کہاں سے آئیں گے جس سے گندم، دالیں، پام آئل، چینی اور کاٹن منگوائی جائے گی تو وزیراعظم سعودی عرب سے دو تین ارب ڈالرز ادھار مانگ لیتے ہیں ا س شرط پر کہ جہاں تین فیصد سے زائد سود ہوگا وہیں پاکستان اسے اڑتالیس گھنٹوں میں واپس کرے گا اگر سعودی عرب نے مانگ لیے۔ پھر کابینہ میں ہی پتہ چلا گندم دوبارہ کم پڑ گئی ہے اور روس سے منگوانی ہے، چینی بھی پوری نہیں ہورہی تو اب کی دفعہ چین سے ادھار مانگا جاتا ہے۔ دو ارب ڈالرز کی کاٹن بھی منگوانی ہے تو ابھی ایک اور موٹر وے گروی رکھ کر ایک ارب ڈالرز کے سکوک بانڈز جاری کیے گئے ہیں جن پر سود ساڑھے سات فیصد بتایا جارہا ہے۔ اس وقت تیل، گیس کے بعد سب سے بڑی امپورٹ زرعی اشیاء کی ہورہی ہے اور مہنگائی عروج پر ہے کیونکہ سب کچھ ڈالرز دے کر منگوایا جاتا ہے اور ملک میں ڈالرز بھی نہیں اور جو ڈالرز ہیں وہ ایک سو اسی روپے تک پہنچا ہوا ہے۔ اگر ہم زراعت پر فوکس کرتے تو آج پاکستان سعودیوں، چینیوں یا آئی ایم ایف سے اربوں ڈالرز قرضہ مانگ کر گندم، چینی، کاٹن، دالیں یا آئل پام امپورٹ نہ کرتا بلکہ آج یہ دس ارب ڈالرز ہم کماتے جب دنیا کو خوراک کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ابھی ہم نے ایک ارب ڈالرز کی چالیس لاکھ ٹن گندم روس کے کسانوں سے خریدی ہے۔ اندازہ کریں یہ ایک ارب ڈالرز ہم کما سکتے تھے لیکن ہم گاہک بن کر رہ گئے ہیں۔ جب پاکستان دس ارب ڈالرز کی اشیاء باہر سے قرضہ لے کر منگوا رہا ہے اس وقت آپ کو اپنی زمینیوں کو بچانے کی ضرورت ہے یا ٹھیکداروں کو دینے کی؟ بڑی مزے کی بات ہے ایک ماہ پہلے ہی کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ زرعی زمینیں ہاوسنگ سوسائٹیز کو نہ دی جائیں۔ بلکہ یہ بھی فیصلہ ہوا ہاوسنگ سوسائٹی کے قیام کے اختیارات ڈپٹی کمشنر یا کمشنر سے لے کر صوبائی کابینہ کو دیے جائیں۔ مطلب پہلے بابوز لمبا ہاتھ مارتے تھے اب ایم پی اے، ایم این ایز، صوبائی وزیر یا وزیراعلی تک بھی برکت پہنچے اگر منظوری لینی ہے۔ لیکن اب ایک ماہ بعد وہی وزیراعظم اجڑے دریائے راوی کے کنارے کھڑے ہو کر کالے سن گلاسز لگا کر سوا لاکھ ایکڑ بلڈرز کو دے رہے ہیں ۔ ساتھ میں وہ یہ بھی فرما رہے ہیں یہ ہاوسنگ سوسائٹی نہیں بن رہی بلکہ ایک نیا شہر بن رہا ہے۔ مطلب سوا لاکھ ایکڑ زرعی زمین نئے شہر کے لیے دی جاسکتی ہے لیکن ہاوسنگ سوسائٹی کے لیے نہیں۔ حیرانی ہوتی ہے یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں اور یہ ا س ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں۔ بلڈرز آپ کو بہت عزیز ہیں کیونکہ وہ کھل کر چندہ دیتے ہیں۔ رشوت کا نام اب “چندہ “رکھ دیا گیا ہے۔ مطلب کان ایک ہاتھ سے نہیں دوسرے سے پکڑ لو۔ یہ بلڈرز صرف زرعی، زرخیز اوردریائی زمینوں پر ہی کیوں حملہ آور ہوتے ہیں؟ اگر دوبئی اور دیگر عرب ممالک اپنے صحرا آباد کرسکتے ہیں اور نئے شہر بسا سکتے ہیں تو ہمارے بلڈرز اور ٹھیکدار کیوں ہمارے بچوں کے مستقبل کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ دھیرے دھیرے ساری زمینیں چٹ کر گئے ہیں۔ ملتان اور اس کے گردو نواح کے قریبی علاقے سب ہاوسنگ سوسائٹیز کھا گئیں۔ میں کچھ عرصہ پہلے ملتان گیا تو صدمے کا شکار ہوا کہ جہاں ملتان کے اردگرد تاحد نظر اسمان اور ہرے بھرے کھیت نظر آتے تھے وہ سب غائب تھے۔ جہاں آموں کے باغات تھے وہاں اب بڑی بڑی عمارتیں بن چکی تھیں۔ ملتان کا درجہ حرارت بڑھ چکا تھا۔ گرمی جو پہلے ملتان اور دیگر علاقوں میں زیادہ ہوتی تھی اس کی شدت بڑھ چکی ہے۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آرہا ہے۔ مری میں بڑی مدت بعد برف کا طوفان آیا جو بائیس لوگوں کی جان لے گیا۔ اگلی باری سیلاب آئیں گے جیسے پہلے دو ہزار دس میں آیا تھا اور بڑے پیمانے پر بربادی کر گیا تھا۔ لاہور کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ وہاں سموگ نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ اکبر چوہدری امریکہ سے آئے ہوئے تھے وہ چند دن لاہور گزارنے بعد اسلام آباد کو نکل آئے کہ سارا گلہ خراب، گرد اور سموگ نے پکڑ لیا۔ یاد پڑتا ہے ایک محکمہ موسمیات کے افسر نے بتایا تھا کچھ برس بعد لوگ لاہور، فیصل آباد اور گوجروانولہ سے ہجرت کر جائیں گے کیونکہ یہ تینوں شہر آلودگی کا شکار ہورہے ہیں اور یہاں انسانوں کا جینا حرام ہو جائے گا۔ جس وقت موسم بےچین ہورہے ہیں اور ہمیں اپنی زراعت اور ماحول کو بچانا ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیاں ہم پر گھناونے اثرات نہ ڈالیں لیکن اس وقت ہی عمران خان نے سوا لاکھ ایکڑ زمین بلڈرز کو دینے کی ٹھان لی ہے۔ حالت یہ ہے اس راوی اربن ڈویپلمنٹ پراجیکٹ کی کہ اس کا ایک سی ای او برطرف ہوا تو وہ بڑی گاڑی لے کر اسلام آباد اپنے گھر بھاگ گیا اور پنجاب حکومت کو چھاپے مار کر گاڑی برآمد کرانی پڑی۔ ایک اور بلیک لسٹ فرم میں تھا تو اسے یہاں نوکری پر رکھ لیا گیا کہ تم فزیبیلٹی منظور کرائو۔ اب آپ بتائیں جب لاہور شہر کی شہ رگ پر سوا لاکھ ایکڑ دریائی زمین پر لاکھوں ٹن سمینٹ، سریا، بجری، کھدایاں ہوں گی وہاں ٹمپریچر کہاں جائے پہنچے گا؟ آپ یاد رکھیں جو بلڈرز اب کہہ رہے ہیں وہ دریائے راوی کا پانی ٹھیک کر دیں گے یہی لوگ دھیرے دھیرے اسی دریا میں پتھر اور مٹی ڈالنا شروع کر کے اس پر بھی عمارتیں تعمیر کر دیں گے۔ ہمارے اکثر دریار جھیلیں اس طرح ان بلڈرز نے قبضہ کی ہیں۔اکثر سوسائٹیز قبرستان، پارکس تک کی زمیں کھا گئی ہیں۔ شکر ہے لاہور ہائی کورٹ نے اس پراجیکٹ کو غلط قرار دے کر روک دیا ہے۔ لیکن وزیراعظم ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور اگلے دن ہی وہ کیمرے اور ٹیمیں لے کر برباد اور اجڑے دریا راوی کے کنارے پہنچ گئے اور فرمایا عدالت کو درست نہیں بتایا گیا وہ اب سپریم کورٹ کو خود سمجھائیں گے کہ سوا لاکھ دریائی زمین ٹھیکدادوں اور” چندہ گروپ” کو دینی کتنی ضروری ہے چاہے قوم کل کو کنسڑکشن میٹریل کھائے۔ ہم امید کرتے تھے عمران خان اس اجڑے راوی دریا کو جا کر دوبارہ آباد کرائیں گے۔ وہاں کے کسانوں کو حوصلہ دیں گے وہ الٹا ارب پتی ٹھیکداروں کو بغل میں لیے سپریم کورٹ جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھارتی مورخ ابراہم ارلی کی سلطنت دہلی کے مسلمان حکمرانوں کے تین سو سالہ اقتدار پر شاندار کتاب پڑھی تھی۔ ان تین سو سالوں میں 33 حکمرانوں نے دلی پر حکومت کی۔ ان میں سے صرف تین اچھے حکمران تھے اور ان کا دور حکمرانی بھی سب سے کم تھا۔ ہمیں تو ان چوہتر برسوں میں ابھی تک ایک بھی نہیں ملا۔ دیکھتے ہیں شاید اگلے 74 برسوں میں ایک مل جائے وہ بھی دو تین سال کے لیے کیونکہ اچھے درد دل رکھنے والے حکمران نہیں ملتے۔ مل بھی جائیں تو دو تین سال سے زیادہ نہیں رہتے۔ کم از کم دلی کے مسلمان بادشاہوں کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔