• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
پیر, ستمبر 22, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home ایکسکلوسو

خطرناک ڈکیت گروہ کا سرغنہ اور 40افراد کا قاتل صادق شاہ ڈکیت کیوں بنا تھا ، موت سے قبل جیل میں صادق شاہ کی وہ خواہش جسے سن کر پولیس بھی حیران رہ گئی

by ویب ڈیسک
جولائی 24, 2024
in ایکسکلوسو, بلاگ, تحقیقاتی رپورٹس
0
90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا
0
SHARES
1.2k
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

آخری قہقہہ ، آخری سچ ، خطرناک ڈکیت گروہ کا سرغنہ اور 40افراد کا قاتل صادق شاہ ڈکیت کیوں بنا تھا ، موت سے قبل جیل میں صادق شاہ کی وہ خواہش جسے سن کر پولیس بھی حیران رہ گئی ، جیل میں صادق شاہ کا انٹرویو کرنے والے صحافی قمر اقبال جتوئی کی زبانی سچی کہانی

’’پانچویں قسط‘‘

پچھلی قسط میں کچھ احباب معترض ہوئے کہ کہانی کو آگے چلائیں باتیں دہرائی نہ جائیں تو بس میں اب صرف وہ منظر نامہ پیش کر رہا ہوں جب میری اور صادق شاہ کی آخری ملاقات ہوئی ۔
میں نے اپنا منہ صادق شاہ کے بالکل قریب کیا تو اس نے کہا گالھ میڈی غور نال سنڑ جتوئی!! میں اوہو کجھ واپس کیتم جیڑھا ایں معاشرے میکوں ڈتا ہا، میڈے ظلم تہاکوں نظردے پِن، جیڑھے ظلم میڈے اُتے ایں زمانے کیتن او تہاکوں نئیں پے نظردے، تساں کیا چاہندے ہاوے میں بزدلیں وانگ اپنڑی حیاتی طاقت ور لوکیں دے اگوں سرِ نوا تے جیواں ہا؟ میں واپس کیتم ایں سوسائٹی کوں اوہو کجھ جیڑھا اوں میکوں ڈتا ہا، البتہ میں واپسی کیتی سود سمیت اِم!!!
میں نے بولنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے جھڑک دیا، سارے سوال جواب میں کنوں مظفرگڑھ دی پلس وی کر گھدن تے اتھوں دی پلس وی!!
ہنڑ میں کنوں سوال جواب نئیں کرنڑے، یاری لاویں تاں میں توڑ نبھیساں، میں نے پوچھا، مرشد!! میکوں تاں تہاڈی میڈی یاری چار ڈنیہاں دی مشکل پئی لگدی اے،
ایں سانگے تاں آکھیم جو یاری لیسیں، توڑ نبھیساں جو میکوں وی پتہ اے، میں کل پرسوں تئیں آں، جتوئی، گالھ سنڑ!! میں آکھیا جی مرشد! کہنے لگا ہک گالھ تیکوں ڈسا ڈیواں، پلس کنیں میکوں مارنڑ دے سوا کئی چارہ نئیں، میں نے کہا کہ مرشد تہاکوں اتنا یقین کیوں اے؟ کہنے لگا، اپنڑے یار یعنی چوہدری حفیظ سے پوچھ کے وہ مجھے عدالت بھی لے جاسکتا ہے؟ اس نے کہا میرے ساتھی میرے جانثار ہیں، یہ مجھے باہر نکالیں میرے ساتھی مجھے چھڑوالیں گے اور اگر انہوں نے میرا کیس چلایا تو کون دے گا گواہی میرے خلاف؟ وہ بہت پر اعتماد تھا مگر سوالوں کے جواب دینے سے اکتاہٹ کا اظہار کر رہاتھا،
میں نے کہا مرشد!! جناب دے ہتھ تہاڈے اپنڑے بیان مطابق 40انسانیں دے خون نال رنگے ہوئین، پنج عزت دار گھریں دیاں عزتاں تار تار تُساں انج کیتن، لکھاں نئیں کروڑاں روپے دا مال لوکیں دا تساں انج لُٹئے، دنیا تہاکوں کڈوں تے کتھاں لٹئے؟ اے تاں فرماؤ؟ صادق شاہ یک دم بھڑک گیا، میں تئیں کنوں بھاشن سنڑڑ کیتے تیکوں کائنی سڈوایا، توں میڈا پیو لگدیں جو سمجھاونڑ کھڑ گئیں ونج یار ونج توں اپنڑا کم کر، صادق شاہ اونچا اونچا بول رہاتھا، اس کی آواز گونجی تو سب سے پہلے نعیم بابر اپنے کمرے سے نکلا پھر چوہدری حفیظ، تھانے کے دالان میں موجود پہرے پر مامور آٹھ مسلح پولیس اہلکار بھی حوالات کی جانب بڑھے، چھت اور گیٹ پر موجود اہلکاران بھی جھاتیاں پا پا ڈیکھنڑ پئے گے، جو معاملہ تھیا کیا اے۔
اس سے پہلے کہ نعیم بابر مجھے یا چوہدری حفیظ کو اچانگ گرم ہو جانیوالے معاملے پر کچھ کہتا چوہدری حفیظ نے مجھے آکر بازو سے پکڑا اور اپنے کمرے میں لے گیا
جہاں اس نے پھر ایک بار میرا مذاق اڑایا اور کہا، ہاں جی پریس رپورٹر صاحب، کی کچھ پچھیا جے اپنڑے مرشد کولوں؟ میں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور کہا کہ مجھے واپس پہنچاؤ، چوہدری حفیظ نے مجھے اپنی کرسی مزید نزدیک کرنے کو کہا جب میں اس کے مزید نزدیک پہنچا تو اس نے اپنا منہ میرے کان سے لگا کر کہا کہ تہاڈا مرشد دوتن دِناں دا مہمان اے، میں نے کہا کہ یعنی یہ جیل جائے گا یا ڈائریکٹ اوپر؟ اس نے ایک آنکھ بند کرکے کہا کہ ڈائریکٹ اوپر، فیصلہ ہو چکا ہے مگر کب بھیجنا ہے یہ اوپر والے ہی جانیں، جب ہمیں حکم ہوگا ہم تعمیل کردیں گے، پھر چوہدری حفیظ نے ایک کانسٹیبل کو باہر سے بلایا اور اسے کہا کہ قمرخاں نوں میری گڈی تے چھڈ آ، اور یوں یہ صادق شاہ سے آخری ملاقات بے سود سی رہی۔
تین دن گذر گئے میں روز چوہدری حفیظ مرحوم سے پوچھتا کہ ہاں جی آیاکوئی حکم اور اس کا جواب مختصراً ہوتا، نہیں۔
دو اپریل کو مجھے میرے بڑے بھائی مجاہد جتوئی صاحب نے فون کرکے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ مجھے تاج لنگاہ صاحب کا فون آیا تھا انہوں نے میرے ذمے ایک کام لگایا ہے اور ان کو بھی کہیں سے معلوم ہوا ہے کہ تم صادق شاہ سے ملتے جلتے ہو، میں تھوڑا سا پریشان ہوا کہ کیا کام ہوگا، انہوں نے کہا چھ سات ماہ پہلے صادق شاہ گینگ نے ملتان شجاع آباد روڈ پر مشتاق ارائیں کے گھر میں ڈکیتی ماری تھی اور یہ کہہ کر آئے تھے کہ ہمیں تمہارے کسی مخالف نے بھیجا ہے، اس لوٹ مار میں بہت کم رقم ملی ہے اس لئے مزید پچاس ہزار روپے کا بندوبست کروہم پھر آئیں گے اور یہ لوگ پھر دوبار ہ وہاں گئے تھے البتہ ان کو آگے سے بہت سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، یہ دو بندے بھی مار کر آئے ہیں، بس وہ لوگ جن کے گھر ڈکیتی ہوئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ صادق شاہ یہ بتا دے کہ وہ کون سا ہمارا مخالف ہے جن کے کہنے پر اس نے ہمارے ہاں اتنی سنگین واردات کی ہے؟ میں نے بھائی جان کو کہا کہ کیا انہوں نے مظفرگڑھ پولیس کے ذریعے نہیں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا ضرور پچھوایا ہے مگر اس نے نہیں بتایا اور ٹال مٹول سے کام لیا ہے، میں نے عرض کی اگر اس نے پولیس کو نہیں بتایا تو مجھے کیسے بتائے گا؟ انہوں نے کہا کہ تاج لنگاہ صاحب نے کہا ہے تم کوشش تو کرو، میں نے ان سے وعدہ کیا اور پھر واپس آگیا، شام کو میں نے اپنی خواہش چوہدری حفیظ پر ظاہر کی تو اس نے کہا کہ میں پُچھاں گا ضرور ویسے اونیں کیڑھا آپاں نوں دسنڑا اے، نالے ہنڑ تیرا جانڑا اُتھے بنڑدا نئیں کہ نعیم بابر سب انسپکٹر نے ایس ایچ او کو نوں تیرے بارے بھڑکا یا ہویا اے تے ایس ایچ او سردار ایوب اعتراض کر رہیا سی میرے نال کہ توں اخباری نمائندیاں نوں ایتھے کیوں لئے کہ آندا اے، میں نے کہا کوئی بات نہیں ٹھیک ہے، میں اپنے بھائی صاحب کو بتادوں گا، میں نے چوہدری حفیظ سے صادق شاہ کو اوپر بھیجنے کا سوال کیا تو اس نے کہا کہ پلس افسر نوں ہر گل بہر دسنڑی نئیں چاہیدی، جے کئی فیصلہ ہویا وی تے لالا میں تینوں دسنڑا نئیں۔
اور پھر وہ رات آ ہی گئی تین اور چار اپریل (بھٹو شہید والی رات) اس رات صادق شاہ دیکھ رہا ہے کہ دس بجے کے بعد تھانے میں اچانک پولیس کی سرگرمی بڑھ جاتی ہے کوئی ادھر جا رہا ہے تو کوئی اُدھر سے آرہا ہے، باہر گاڑیاں رکنے کی آوازیں اندر تک آرہی تھیں پھر اس نے حوالات کی سلاخوں سے دیکھا کہ ایس ایچ اوصدر سردار ایوب بھی رات کے وقت پہنچا اور جب منیرافضل خاں تھانے پہنچا تو صادق شاہ کو اب اندازہ ہو گیا ہے کہ آج کچھ ہونے والا ہے، شاید اس کے ذہن میں یہ گیت کے بول آئے ہوں (آج کی رات بڑی بھاری ہے آج کی رات بڑی مشکل ہے)تقریباً ساڑھے دس بجے چوہدری حفیظ چابی لیکر حوالات کے قریب آتا ہے،
شاہ جی!! کئی خدمت ہووے تاں دسو؟ چوہدری حفیظ صادق شاہ کو کہتا ہے، اچھا! ایندا مطلب اے، فیصلہ تھی گے؟ چوہدری حفیظ، اثبات میں سر ہلاتا ہے، صادق شاہ کہتا ہے کہ اچھا، ول ہک گالھ تاں من، جڈوں دا میکوں پلس پکڑئے کہیں ویلہے دال کہیں ویلہے ایویں چندری جہیں بے سواد بھاجی، تے کہیں ویلہے لوتی ہوئی ویلائتی ککڑ کھویندے رہ گیو، اچھا اج ول میکوں باکرے گوشت دی کڑاہی تاں کھواؤ؟
چوہدری حفیظ ایس ایچ او سردار ایوب کے کمرے میں جاتا ہے، صادق شاہ کی فرمائش بتاتا ہے، سردار ایوب فون پر ڈی ایس پی رائے مقصود کھرل کوصادق شاہ کی فرمائش سے آگاہ کرتا ہے، رائے صاحب مرحوم بھی اس وقت تیسرے چوتھے آسمان پر ہوں گے ویسے بھی رائے مقصود مرحوم بڑا رحمدل بندہ تھا، اس کی رضامندی کے بعد ایس ایچ او سردار ایوب چوہدری حفیظ کو کہتا ہے منگوا دو، چوہدری حفیظ باہر آکر ایک کانسٹیبل کو کہتا ہے کیفے اللہ خیرنواں کوٹ چوک میں جاؤ اور وہاں میرا نام کہہ کر آدھا کلو بکرے کے گوشت کی کڑاہی لیکر آؤ مگر آنا جلدی ہے، پون گھنٹے بعدسپاہی کڑاہی گوشت چار روٹیاں رائتہ سلاد لے آتا ہے، حوالات کا دروازہ کھول کر صادق شاہ کی ہتھکڑیاں کھولی جاتی ہیں وہ حوالات کے فرش پر بچھی چٹائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر بڑے اطمینان سے کڑاہی گوشت چٹ کرنے لگ جاتا ہے اس دوران ایک کانسٹیبل پانی کا جگ بھر کر لاتا ہے وہ بھی اندر رکھ دیا جاتا ہے، صادق شاہ بڑے آرام سے پورے آدھے کلو کی کڑاہی کھا کر ڈکار مارتا ہے پھر باہر کھڑے چوہدری حفیظ کو کہتا ہے یا رچوہدری مزہ آگے، کاش میں تیکوں آکھا ں ہا چا جو ہک سیون اپ دی بوتل وی نال ہووے تاں بئی چس آونجے ہا، چوہدری حفیظ کہتا ہے شاہ جی فرمائشاں اِکے ویلہے کری دیاں نیں، صادق شاہ کہنے لگا اچھا ول ہنڑ جلوں؟ باہر بہت ساری سپاہ الرٹ کھڑی ہوتی ہے، آج تھانے کے اندر ااور باہر تیرہ چودہ دن سے ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں کو بھی پتہ تھا کہ آج کے بعد ہم گھر جاکر کچھ دن سکون سے سوئیں گے، کئی دن سے تھانے کے باہر ڈیوٹی پر مامور کانسٹیبلوں نے ڈیوٹی دینے کے باوجود صادق شاہ کو قریب سے دیکھا نہیں تھا، بس ایک دوسرے سے ہی اس کے قصے سنے تھے، انہوں نے بھی چوہدری حفیظ کو اپنی خواہش ظاہر کہ مگر چوہدری حفیظ نے یہ کہہ کر جھڑک دیا کہ اس وقت سب سے زیادہ الرٹ رہنے کی ضرورت ہے اور تم بچوں والی خواہش لیکر آگئے ہو چلو اپنی ڈیوٹی پر چوک و چوبند ہو کر کھڑے ہو جاؤ اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر ذرا سی بھی مداخلت یا باہرسے کسی حملہ آور کو دیکھو تو مجھ سے یا ایس ایچ او صاحب سے اجازت لینے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی تمہیں اس وقت فرصت ہو گی، اپنا فرض نبھانا، کانسٹیبلز اپنا سامنہ لیکر واپس چلے گئے، صادق شاہ نے اس حوالات میں آخری بار پیشاب کیا، ایک ہاتھ میں ہتھکڑی لگی دوسرے ہاتھ سے آزار بند باندھتا صادق شاہ حوالات سے باہر آیا تو چوہدری حفیظ نے اس کی ہتھکڑی کھولی اور پھر وہی ہتھکڑی صادق شاہ کے بازوؤں کو پیچھے موڑ کر لگا دی، صادق شاہ کو ہتھکڑی لگا کر چوہدری حفیظ نے صادق شاہ کواپنے ہاتھ سے پکڑ کر ایک ڈالے میں بٹھایا باہر مزید کئی گاڑیاں موجود تھیں افسران اور اہلکاران گاڑیوں میں بیٹھنے لگے گاڑیاں آگے پیچھے چلنے لگیں تھانے سے باہر جانے والی پہلی گاڑی یعنی پائلٹ گاڑی میں منیرافضل خاں مرحوم اس وقت کے ایس ایچ او سٹی خان پورموجود تھے، دوسری گاڑی میں ایس ایچ او صدر تھانہ سردارمحمد ایوب، نعیم بابر سب انسپکٹر، محمد ارشد ہیڈ کانسٹیبل، نبی بخش C/2ریاست علی 299 کے علاوہ دیگر نفری کے ساتھ تیسری گاڑی میں صادق شاہ چوہدری حفیظ اور دیگر نفری کے ہمراہ، چوتھی گاڑی میں ایس ایچ او کوٹسمابہ مقبول حسین مع اے ایس آئی محمد یعقوب، کانسٹیبلان علم دین 541، نبی بخش 73/Cو دیگر نفری کے ہمراہ اور دو مزید گاڑیوں میں پولیس لائن سے آئی ہوئی نفری تھی، پائلٹ گاڑی تھانے صدر سے سیدھے ہاتھ کو مڑی اور عباسیہ پل کراس کرنے کے بعد یہ قافلہ چوک دین پور سے ہوتا ہوا چوک نواں کوٹ پہنچا تو وہاں کیفے اللہ خیر کھلا ہوا تھا اس کے سامنے چار پانچ اے سی کوچز رکی ہوئی تھیں، مسافر نیچے اتر کر کھانا کھا رہے تھے، ایک کوچ کا کنڈیکٹر آوازیں مار رہا تھا 8511والے مسافر آجانڑ گڈی تیار اے تن مسافراں دی سیٹ خالی اے، پھرو ہ سیٹوں کے نمبر پکارنے لگا گاڑیوں کا یہ قافلہ جب رات بارہ بجے کے لگ بھگ نہائت تیزی سے نواں کوٹ چوک سے گذررہا تھا تو مسافر اور ہوٹل کا عملہ متعدد شہری قافلے کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ اللہ خیر کرے لگدے کئی وڈی واردات تھی گئی اے،لوگ تبصرہ کرنے لگ گئے۔
اتلی تیز پلس دیاں گاڈیاں لنگھن جو مٹی نال دھوں اندھار کر ڈتی اینے،ہوٹل کا تندوری فرید بخش منہ ہی منہ میں بڑبڑایا، کسی کو کیا پتہ تھا کہ ایک بندے کی زندگی کا چراغ اگلے گھنٹے میں گل ہو جائیگا، ماڈل ٹاؤن روڈ مکمل سنسان، البتہ پیراڈائز سینماکا آخری شو ابھی ابھی ختم ہوا تھا کچھ فلم بین حضرات تانگوں میں بیٹھ رہے تھے کچھ پیدل ہی سڑک تک آگئے تھے جبکہ باقی ابھی سینما کے گراؤنڈ میں سے باہر نکل رہے تھے۔
پولیس کی گاڑیوں کا یہ قافلہ ڈی ایس پی آفس کے سامنے سے گذر کر میونسپل کمیٹی کو کراس کرتا پنج موری والا موڑ مڑ کر بازار حسن کے سامنے پہنچا تو وہاں بھی ابھی تھوڑی بہت رونق تھی، گولڈن سینما کا آخری شو ختم ہوچکا تھا، فلم بین حضرات ان دنوں تک سینما میں فلم دیکھنے کے شائق تھے،اس لئے بازار حسن کے سامنے ایک رش کی سی کیفیت تھی، وہاں سے بھی جب پولیس کی چھ سات گاڑیاں فراٹے بھرتے گذریں تو لوگ حیران پریشان نظروں سے دیکھ رہے تھے، یہ قافلہ جب ودود کاٹن فیکٹری کے سامنے سے گذر رہا تھا تو پہلی پائلٹ گاڑی جس میں منیرافضل خاں مرحوم موجود تھے اس کے سامنے ایک بلی آ گئی اس گاڑی کو ڈرائیور غلام قادرعرف ماما چلا رہا تھا اس نے بلی بچانے کے لئے یک دم بریک مارے تو بیک وقت پچھلی کئی گاڑیوں کواچانک بریک لگانی پڑی گاڑیوں کے ٹائر رات کے بارہ بجے چرچرائے، خاموش فضا میں ایک شور سا اٹھا اور پھر یہ قافلہ رواں دواں ہو گیا، منیرافضل مرحوم حسب عادت زور سے کھلکھلائے اور کہا ”ی ہ ن س بھینڑ کوں شکر اے بلی کالی کائنا ہئی، نتاں آپاں کوں اج واپس ولنڑا پووے ہا،“یہ کہہ کر حسب عادت انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے ہی بایاں ہاتھ مار کر تالی بجائی اور ایک بے تکلفانہ سی گالی مامے غلام قادر کی طرف اچھا ل کر وائرلیس سیٹ اٹھا لیا، وائرلیس سیٹ اٹھاتے کہا آپریٹر 9سٹی خان پور، یس سر، خالد سٹی خان پور، یس سر، تمام موبائل گاڑیوں کے ڈرائیور کو پیغام دیں کہ اپنی گاڑیاں ایک دوسرے سے فاصلے پر رکھیں، ابھی ایک بلی کی وجہ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ٹکراتے بچے ہیں، یہ نہ ہو ایک اہم مشن ہمیں موخر کرنا پڑے، راجر سر، آپریٹر کی آواز گونجی، اور پھر آپریٹر قافلے میں شریک تمام گاڑیوں کے ڈرائیورز کو منیرافضل خاں کا پیغام پہنچانے لگا، سکول حلقہ نمبر ایک کراس کرتے ہی گاڑیوں نے مزید اسپیڈ پکڑ لی کیونکہ اب آگے ٹریفک نہ ہونے کو تھی گاڑیاں فراٹے بھرتی سیدھی جا رہی تھیں، تھوڑی تھوڑی دیر بعد خستہ حال سڑک میں موجود کوئی زیادہ گہرا گڑھا آجاتا تو صادق شاہ اچھل کر چوہدری حفیظ کی گود میں جا گرتا، چوہدری حفیظ کے ہاتھ تو آزاد تھے وہ گاڑی کے کسی نہ کسی کونے کو پکڑ لیتا تھا جبکہ صادق شاہ کے دونوں ہاتھ تو پیچھے موڑ کر باندھے گئے تھے اس کا حل چوہدری حفیظ نے یہ نکالا کہ جو چار سپاہی چوہدری حفیظ کے ساتھ مزید تھے ان میں سے دو کی ڈیوٹی لگادی کہ وہ صادق شاہ کو پکڑ کر بیٹھیں تاکہ یہ پھر میری جھولی میں نہ آن گرے، گاڑیاں ماڑی اللہ بچایا کراس کرکے الٹے ہاتھ پر مڑ گئیں اب یہاں سڑک نہ تھی اس لئے گاڑیوں کی اسپیڈ کافی آہستہ ہوگئی،
صادق شاہ چوہدری حفیظ سے کوئی بات کرنا چاہتا تھا، اس نے کہا چوہدری!! حفیظ نے نہائت ملائم لہجے میں جواب دیا(حالانکہ حفیظ مرحوم سخت اور کھردرے لہجے سے بات کرنے کا عادی تھا) جی شاہ جی!! یار جیڑھا کم کرنڑے تساں کرو، ابھی اس کی بات کا جواب چوہدری حفیظ نہیں دے پایا کہ اچانک (منصوبے کے تحت) وائرلیس پر پیغام چلنے لگا کہ درجنوں قتل اور ڈکیتیوں کا ملزم صادق شاہ جس کو ایک اہم تفتیش کے لئے باغوبہار کی جانب لے جایا جا رہا تھا کہ اس نے پیشاب کی حاجت کا ذکر کیا، اسے پیشاب کروانے کے لئے گاڑی سے اتارا گیا تو وہ کانسٹیبل سے ہتھکڑی چھڑوا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے،گاڑیاں اب شور مچاتے ہوئے نہیں بلکہ آہستہ آہستہ چل رہی تھیں اس لئے وائرلیس پر نشر ہونے والے پیغام کی آوازیں پیچھے بیٹھے صادق شاہ تک آرہی تھیں، وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور پھر اگلے فقرے مکمل کرتے ہوئے چوہدری حفیظ سے کہنے لگا، ول میں بھج پیاں۔ تہاڈے سپاہی کنوں رائفل کھسی ام، تہاڈے اُتے فائرنگ کیتی اِم، ُتساں جواب وچ میڈے اُتے فائرنگ کیتی اے تے ول میں پلس نال مقابلہ کریندے ہوئیں مریج گئیاں، ہا ہا ہا
چوہدری حفیظ کنفیوز ہوگیا، کہنے لگا شاہ جی تُسی سب کجھ جانڑدے او بابا، فیر اسی کی جواب دئیے، ول یار مکاؤ دھندہ اتلی پرے گھن آیو، صادق شاہ نے سپاہیوں کی جناب دیکھ کر کہا
ماڑی اللہ بچایا سے چند کلومیٹر کے بعد باقاعدہ روہی کے ٹیلے نظر آنے لگ گئے، کہاں یہ کام کرنا تھا اس کا فیصلہ منیرافضل خاں نے کرنا تھا اس لئے اسے ہی پائلٹ گاڑی میں بٹھایا گیا، اب صادق شاہ چوہدری حفیظ کے ساتھ گپ شپ مارنے کے موڈ میں تھا مگر چوہدری حفیظ کہتا ہے کہ میں کنفیو ز تھا کہ اس بندے کو سوفیصد یقین ہے کہ ابھی تھوڑی دیر بعد مجھے مار دیا جائیگا مگر اس کو ذرا سی بھی پرواہ نہیں، گاڑیاں چک 131/1Lکے قریب پہنچیں تو آگے ریتیلا راستہ ان خستہ حال سرکاری گاڑیوں کے لئے مشکل بن گیا(یہ عین وہ جگہ ہے جہاں سے لوگ روہی میں جام فرید کے گوپے پر جاتے ہوئے دائیں ہاتھ مڑتے ہیں، اُن دنوں گوپا شوپا بھی نہیں تھا اور راستے بھی نہیں ہوتے تھے) جس کی وجہ سے منیرافضل خاں نے اپنی گاڑی رکوائی تو پچھلی ساری گاڑیاں رک گئیں چوہدری حفیظ اپنی گاڑی سے اتر کر اگلی گاڑی کی جانب جانے لگا تو منیرافضل خاں گاڑی سے اتر چکا تھا، ہاں حفیظ، ٹھیک نئیں اتھائیں، چوہدری حفیظ نے کہا خان صاحب جتھے تُسی کہوو، لہاؤس، منیرافضل خاں نے کہا،
چوہدری حفیظ نے اشارہ کیا تو پیچھے بیٹھے سپاہیوں نے صادق شاہ کو گاڑی سے اتارا، ایس ایچ او صدر سردارایوب، ایس ایچ او کوٹسمابہ مقبول حسین، سب انسپکٹر نعیم بابر اور ان کے ساتھ آئی ساری نفری گاڑیوں سے اتر کر صادق شاہ کے گرد گھیرا قائم کر چکی تھی۔
یہ تین اور 4اپریل کی درمیانی شب تھی، شوال کی 21تاریخ تھی، چاند اپنے جوبن پر نہیں تھا مگر روہی کے ٹیلوں پر اس وقت چاندنی پھیلارہا تھا، گھپ اندھیرا نہیں تھاالبتہ چاروں طرف مکمل سناٹا تھا، صرف ایک گاڑی کی لائٹس جل رہی تھیں، موسم بہار کا تھا، نہ سردی نہ گرمی، چوہدری حفیظ جو بظاہر ایک انتہائی سخت گیر پولیس آفیسر تھا، پتہ نہیں اس کے دل میں کیا آئی کہ اچانک صادق شاہ کو مخاطب کرکے کہا کہ شاہ جی، کوئی آخری خواہش؟
صادق شاہ نے ایک لمبی سی آہ بھری اور پھر سوچ سوچ کر بولنے لگا
میں تہاکوں دوران تفتیش ڈھیر سارے کوڑ مارئے ہوسن پر ہک کوڑ اینجھا ہا جیندی میں آخری ٹائم درستگی کرنڑ چاہنداں جو میں اپنڑی ذال تے ڈوسال دے بال۔۔۔ جاری ہے۔۔!!

(نوٹ ) اگلی قسط صادق شاہ کی ذاتی زندگی کی آخری قسط ہوگی البتہ صادق شاہ کے ساتھیوں کا اصلی پولیس مقابلے کا میں عینی شاہد ہوں۔
قارئین یہ پولیس مقابلہ خان پور کی تاریخ کا اب تک کا پہلا اور آج کے دن تک آخری اصلی پولیس مقابلہ تھا، جس میں دو ڈکیت کس طرح پولیس کے ساتھ لڑے، یہ اب آپ کو پڑھاؤں گا نہیں بلکہ یوں سمجھیں دکھاؤں گا۔

قسط نمبر 4 نیچے لنک میں

1992 میں جیل میں تشکیل پانے والے خطرناک ڈکیت گروہ اور اس کے سرغنہ صادق شاہ کے شیطانی کارناموں کی دل دہلا دینے والی داستان

قسط نمبر 3 نیچے لنک میں

ایک معمولی سا چور پہلے ڈاکو ، پھر فرمائشی ڈکیت اور پھر سیاسی شخصیات کو قتل کرنے والا کرائے کا خونخوار قاتل کیسے بنا ،صادق شاہ کس کا بیٹاتھا ؟

قسط نمبر 2 نیچے لنک میں

اجرتی قاتل اور خوفناک ڈاکو صادق شاہ کی گرفتاری کی 30سال پرانی ناقابل یقین کہانی ، صحافی قمر اقبال جتوئی کی زبانی

قسط نمبر 1 نیچے لنک میں

90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا

Tags: Sadiq Shah Dakuصادق شاہ ڈاکو
ویب ڈیسک

ویب ڈیسک

Next Post
پاکستانیوں کیلئے پٹرول کا جھٹکا تیار ، قیمت میں کتنا بڑا اضافہ متوقع ؟ 

حکومت کی آئل کمپنیوں کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار دینے کی تیاری

مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بننے کا امکان، نمبر گیم انتہائی دلچسپ صورتحال اختیار کر گیا

اسمبلیاں تحلیل کیے بغیر ملک میں نئے انتخابات ،کب ، کیا اور کیسے ہوگا ؟ پی ٹی آئی آخری بڑا ٹرمپ کارڈ کھیلنے کو تیار ، عمر ایوب کے اہم انکشافات

90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا

40لوگوں کے قاتل خطرناک ڈکیت صادق شاہ کی پولیس مقابلے میں مارے جانے سے قبل آخری 2 حیرت انگیز خواہشات

90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا

خطرناک ڈاکو صادق شاہ کی موت کے بعداس کے خونخوار ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے پولیس مقابلے کی سنسنی خیز کہانی ، پیشے سے درزی اور مستری دہشت ناک ڈکیت کیسے بنے 

اسماعیل ہنیہ کون تھے اور اسرائیل نے انہیں ٹارگٹ کیوں کیا؟اسلام آباد سےزاہد بلوچ کی رپورٹ

اسماعیل ہنیہ کون تھے اور اسرائیل نے انہیں ٹارگٹ کیوں کیا؟اسلام آباد سےزاہد بلوچ کی رپورٹ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In