• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
پیر, ستمبر 22, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home ایکسکلوسو

40لوگوں کے قاتل خطرناک ڈکیت صادق شاہ کی پولیس مقابلے میں مارے جانے سے قبل آخری 2 حیرت انگیز خواہشات

by ویب ڈیسک
جولائی 25, 2024
in ایکسکلوسو, بلاگ, تازہ ترین, تحقیقاتی رپورٹس
0
90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا
0
SHARES
1k
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

خود کو بیٹے کیلئے نشانِ عبرت  بنانے کا فیصلہ ،40لوگوں کے قاتل خطرناک ڈکیت صادق شاہ کی پولیس مقابلے میں مارے جانے سے قبل آخری 2 حیرت انگیز خواہشات ،جیل میں صادق شاہ کا انٹرویو کرنے والے صحافی قمر اقبال جتوئی آدھی رات کو اسکی  قبر پر گئے تو کیا دیکھا ؟

چھٹی قسط۔۔۔
صادق شاہ نے ایک لمبی سی آہ بھری اور پھر سوچ سوچ کر بولنے لگا
میں تہاکوں دوران تفتیش ڈھیر سارے کوڑ مارئے ہوسن پر ہک کوڑ اینجھا ہا جیندی میں آخری ٹائم تردید کرنڑ چاہنداں جو میں اپنڑی ذال تے ڈوسال دے بال دے بارے کوڑ ماریا ہَم جو انہاں کوں مار تے نہر وچ لوڑھ ڈتا ہَم، میڈی ذال جیندی اے (یعنی زندہ ہے) تے میڈا ہک بال وی ہے، تقریباً 2سال دا ہوسے، منیرافضل خاں سے صبر نہ ہوا جلدی سے پوچھا کہ اچھا! ہنڑ تیڈی ذال بال کتھ اِن؟ صادق شاہ نے جواب دیا کہ او شئیت ایں وقت کراچی ہوسن تے میڈے ساتھیاں ستاری گوپانگ، اللہ ڈتہ بوہڑ، حمیدا ماچھی وغیرہ انہاں دے رلے ہوسن، اس موقع پر چوہدری حفیظ بولا کہ شاہ جی، اے تہاڈے ساتھی کراچی کیڑھی جگہ تے رہندے نیں؟ اس موقع پر صادق شاہ مسکرایا اور کہا چوہدری! اے گالھ ٹھیک اے جو میں مردا پیاں تے مرنڑ ویلہے بندہ کوڑ نئیں مریندا پر ایڈا کملا وی نئیں جو وفادار ساتھیاں دا تے اپنڑے بال بچیں دا اتہ پتہ وی ڈسا تے مراں!! واہ چوہدری واہ ساکوں ایڈا کملا سمجھی!
صادق شاہ نے موت کے وقت یہی کپڑے پہنے ہوئے ہیں جو آپ تصویر میں دیکھ رہے ہیں، یہ کپڑے صادق شاہ کے ذاتی نہیں ہے،تھانہ صدر میں تعینات ایک پولیس کانسٹیبل کے ہیں جس کا قدکاٹھ صادق شاہ سے ملتا جلتا تھا، پہلے والے کپڑے بہت میلے ہوگئے تھے موت سے تین دن پہلے یکم اپریل کو چوہدری حفیظ نے صادق شاہ کو دئے تھے پہننے کے لئے، صادق شاہ ریت کے ٹیلے پر خود بخود بیٹھ گیا اور پھر چوہدری حفیظ کو مخاطب کرکے بولنے لگا،چوہدری! تئیں آخری خواہش پچھی ہئی؟ جی شاہ جی، میڈی آخری خواہش اے ہے جو گولڈ لیف دا سگریٹ میکوں پلواؤ ہا، سارے پولیس والے اس کی یہ آخری خواہش سن کر حیران ہوئے، وہ ان کے چہروں پر اپنی آخری خواہش کا سن کر حیرت زدہ ہونے کے تاثرات کو دیکھ دیکھ کر بڑا محظوظ ہورہا تھا، اب اسکے ارد گرد جتنے پولیس آفیسر کھڑے تھے ان میں سے کوئی بھی سگریٹ نوش نہیں تھا سوائے منیرافضل خاں کے، مگر منیرافضل خاں بھی باقاعدہ سگریٹ نوشی نہیں کرتا تھا، کسی محفل میں یاردوست سگریٹ نوشی کررہے ہوں اور کوئی اسے صلاح مارے تووہ اپنی دوانگلیاں آگے کردیتا تھا، اسی اثناء میں چوہدری حفیظ کی نگاہ پیچھے کھڑے کانسٹیبل فدا عباسی پر پڑی،اس نے اسے بلایا، فدا تیرے کول گولڈ لیف دا سگریٹ ہئے؟ فدا عباسی نے کہا، ہاں جی، یار شاہ جی نوں دے خاں، اس نے گولڈ لیف کی ڈبی نکالی اور چوہدری حفیظ کو تھما دی، چوہدری حفیظ نے ڈبی سے ایک سگریٹ نکال کر صادق شاہ کو پیش کی اس نے سگریٹ دو انگلیوں میں تھاما اور پھر اشارہ دیا، اینکوں بکھیسے تہاڈا پیو؟
منیرافضل اس کا اشارہ سمجھ کر مسکرایا ااور فدا عباسی کی جانب دیکھا فدا نے ماچس جیب سے نکالی اور آگے بڑھا تو صادق شاہ نے سگریٹ ہونٹوں سے لگایا، فدا عباسی نے آگ دکھا ئی، سگریٹ سلگا، صادق شاہ نے بڑا سا کش لگایا، منہ اور نتھنوں سے بیک وقت دھواں نکالا اور پھر چوہدری حفیظ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میڈی آخری خواہش اے وی ہے جو میکوں کنڈھ تے گولی نہ مریجو، میڈے منہ تے وی گولی نہ مریجو، جیڑھی میڈی ویڈیو بنڑائی ہیوے اوندی ہک کاپی میڈی ذال تک پچیسواونکوں اکھیسو جو میڈے پتر کوں ڈکھیندی راہوے جو تیڈے پیو دے اے کرتوت ہَن تے ایں سانگے انجام وی اینجھا تھئیس، جے میڈے ورثاء وچوں کئی میڈی لاش گھنڑ آوے تاں میڈی لاش اُنہاں کوں ڈے ڈیوائے، صادق شاہ یہ باتیں بھی کررہا تھا اور ہلکے ہلکے سگریٹ کے کش لے رہا تھا، اس کا آخری مکالمہ اپنے قاتل کے ساتھ تھا یعنی چوہدری حفیظ کے ساتھ، یار چوہدری!! ہک حسرت اے، کاش اے مقابلہ اصلی ہووے ہا، میکوں مرنڑ دا مزہ آوے ہا، تہاکوں مارنڑ دا!!! پھر کہا، چوہدری! میکوں کلمہ بھرنڑ ڈیویں، ویسے میڈے کم ایہو جہیں کائنا ہَن جو میکوں کلمہ وی نصیب تھیوے پر یار میں سید قریشی دا بال آں، نانے دا کلمہ پڑھنڑ ڈیویں، یہ کہہ کر صادق شاہ اٹھا اور ریت کے ٹیلے سے الٹے پاؤں پیچھے کی جانب چلنے لگا، وہ اس وقت غضب کا پراعتماد نظر آرہاتھا اس لمحے کہیں سے بھی محسوس نہیں ہورہا تھا کہ صادق شاہ پزل تھی تے مردا پے!!چوہدری حفیظ کے ہاتھ میں سیمی رائفل تھی (1994میں سیمی رائفل اور جی تھری ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی تھی) اس نے رائفل سیدھی کی اور اس جگہ پر آن کھڑا ہوا جہاں چند لمحے پہلے صادق شاہ بیٹھا تھا، چوہدری حفیظ کے دائیں منیرافضل خاں اور بائیں سردار ایوب کھڑے تھے، باقی سب آفیسر اور نفری کے جوان شدید دباؤ کا شکار نظرآتے تھے، بالکل سناٹا تھا کہ اچانک بالکل قریب سے ہی ایک جنگلی خرگوش جھاڑیوں سے باہر نکل کر بھاگا تو یک دم سارے ہی خوفزدہ ہوکر الرٹ ہوگئے مگر یہ ایک سیکنڈ کا سین تھا،
چوہدری حفیظ نے اپنے دائیں بائیں کھڑے اپنے سینئرز کی جانب دیکھا جیسے اجازت مانگ رہا ہو، دونوں نے سرہلاکر اجازت دی
حفیظ نے رائفل سیدھی کی تو صادق شاہ بغیر کسی لغزش اور خوف کے پورے اعتماد سے بغیر لڑکھڑائے سینہ تانے الٹے پاؤں چل رہا تھا دونوں کے درمیان دس فٹ کا فاصلہ بڑھ کرمزید بڑھتا جا رہا تھا کہ صادق شاہ نے باآواز بلند کلمہ پڑھا، اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ
روہی چولستان کی خاموش فضا میں یکے بعد دیگرے پانچ بار سیمی رائفل نے شعلے اگلے جن میں سے چوتھی گولی تک صادق شاہ اپنے پیروں پر کھڑا رہا البتہ پانچویں گولی نکلنے سے پہلے وہ گرچکا تھا اس لئے اسے پانچ میں سے چار گولیاں لگیں، ایک گولی دائیں طرف سے سینے پر، دوسری دائیں پسلی میں، تیسری سامنے کی طرف سے پیٹ میں اور چوتھی دائیں بازو پر کہنی سے نیچے!!
صادق شاہ گرگیا تو وہاں موجود تمام پولیس والے چند سیکنڈ کے لئے ایسے خاموش ہوئے کہ لگتا تھا کہ یہاں کوئی ہے ہی نہیں پھر پیچھے سے فداعباسی کانسٹیبل نے نعرہ مار ا، نعرہ تکبیر اللہ اکبر، نعرہ رسالت یا رسول اللہ، نعرہ حیدری یا علی یا علی ول نعرہ حیدری یا علی!!!
چوہدری حفیظ نے ایک بھی نعرے کا جواب نہیں دیا، پانچ فائر ہوجانے پر حفیظ نے گن نیچے کی اور گن کا سہارا لے کر گھنٹوں کے بل وہ وہیں بیٹھ گیا، دراصل حفیظ اور صادق شاہ مسلسل پندرہ دن کے ناطے میں بندھے ہوئے تھے حفیظ نے اپنے ہاتھ سے اسے مارا مگر اسے کوئی خوشی و مسرت نہیں ہوئی اور نہ ہی مارنے کے بعدوہ پہلے جیسا جوش جذبہ تھا اس کی کیفیت اس بندے کی سی تھی جو قربانی کا جانور پالتا ہے اسے پتہ ہے کہ میں نے اسے ذبح کرنا مگر وہ اسے ذبح کرتے وقت خوش نہیں ہوتا، حفیظ دس سیکنڈ تک باقی دنیا و مافیہا سے لاتعلق سا ہو گیا پھر منیرافضل خاں نے اسے اٹھایا کہ خیر اے؟ ہنڑ ارمان لگ گے؟ حفیظ نے کوئی جواب نہ دیا تو منیرافضل خاں بولا میں آہدا ہم میکوں مارنڑ ڈے جو آخری ڈینہاں وچ تیڈا صادق شاہ نال پیار پئے گیا ہا، چوہدری حفیظ کو جب احساس ہوا کہ میری اس کیفیت کو بعد میں ڈسکس کیا جائے گا اور میرا مذاق اڑایا جائے گا تو وہ اگلے لمحے ہی حفیظ جن بن گیا اور فدا عباسی، نبی بخش، ہیڈ کانسٹیبل محمد ارشد اور ریاست علی کی ڈیوٹی لگائی کہ تم لوگ لاش کو اٹھا کر سب انسپکٹر نعیم بابر بھٹی کے ساتھ شیخ زید ہسپتال رحیم یار خاں جاؤ گے، ان کی ڈیوٹی لگانے کے بعد باقی لوگ گاڑیوں میں بیٹھنے لگے کہ اس دوران وائرلیس پر ایک بار پھر پیغام جاری ہوا کہ بدنام زمانہ ڈکیت اور خونی قاتل جو پولیس کی حراست سے فرار ہوکر خالد نامی ایک شہری سے اس کا موٹر سائیکل اور اس کی لائسنسی گن 7ایم ایم چھین کر فرار ہوگیا تھا اس وقت وہ تھانہ اسلام گڑھ کے علاقے چک 131ون ایل میں موجود ہے اور تعاقب جاری رکھنے والی پولیس پارٹی جس کی قیادت ایس ایچ او تھانہ صدر سردار ایوب کررہے ہیں ان پر فائرنگ کررہا ہے، وائرلیس میں پیغام نشر کیا گیا کہ خالدسٹی خان پور منیرافضل خاں، خالد (یعنی ایس ایچ او)تھانہ اسلام گڑھ اور خالد تھانہ کوٹسمابہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ فوراً خالد صدر خان پور کی امداد کو پہنچیں۔
یہ سب قانونی تقاضوں کو پورا کرنے لئے کیا جارہا تھا، یاد رکھیں کہ ان دنوں پولیس میں عدالتوں کی جواب طلبی کا خوف بھی تھا اور احترام بھی، اس لئے پولیس سب کچھ کرنے کے بعد اسے قانونی تقاضوں کے مطابق یہ سارا ڈرامہ رچا رہی تھی۔
دہشت، سفاکیت، درندگی، شیطانیت، فسطایئت کا ایک باب بند ہوا، وہ صادق شاہ جس کے نام کے خوف اور دہشت سے باقی عوام کو چھوڑو خود پولیس والے کانپتے تھے، وہ صادق شاہ جس کا خوف کوئی ایک شہر، کوئی ایک ضلع میں نہیں بلکہ ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خاں کے تینوں ڈویژنوں میں تھا، اس کے ساتھ دس جانثار وں کا ٹولہ ہمیشہ ساتھ رہتا تھا آج ریت کے ایک ٹیلے پر اس کی لاش بے یار و مددگار پڑی تھی اور اسے روہی کی ریت سے نکلنے والے کیڑے مکوڑے کھا رہے تھے۔
قانونی تقاضوں کو پورا کرنے لئے لاش کا نقشہ صورتحال بنانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ لاش کس جگہ پر کس ڈائریکشن میں موقع پر موجود تھی مگر ان تما م تقاضوں کو نظرانداز کر کے لاش کو فوراً وہاں سے اٹھانا تھا جس کے لئے ایک بار پھر قانونی تقاضہ یوں پورا کیا گیا کہ تھانہ اسلام گڑھ میں جس کی حدود میں یہ پولیس مقابلہ شو کیا گیا اس میں جو مقدمہ درج کیا گیا اس ایف آئی آر میں صادق شاہ کو زخمی دکھایا گیا کہ ملزم پولیس کی گولیوں سے زخمی ہوگیا ہے اب ہم اسے صبح چار بجے باغوبہار رورل ہیلتھ سنٹر لے جارہے ہیں دوسری ایف آئی آر میں اس کی موت دکھائی گئی اور پھر شیخ زید ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا،
یاد رہے کہ پولیس مقابلے میں کوئی زخمی ہو یا مارا جائے یا پولیس کے تشدد سے مضروب ہو یا مارا جائے اس کا ڈاکٹری ملاحظہ یا پوسٹ مارٹم ڈسٹرکٹ میڈیکل بورڈ کرتا ہے،
قدرت کا انتقام!!! صرف آدھے گھنٹے بعد جب صادق شاہ کی لاش اٹھانے کے لئے سپاہی آگے بڑھے اور ٹارچ جلائی گئی تو صادق شاہ کی لاش کو چولستانی کیڑے مکوڑوں نے کھانا شروع کردیا تھا
کانسٹیبل غلام نبی اور ریاست علی نے آکر گاڑی میں بیٹھے ہوئے منیرافضل خاں اور چوہدری حفیظ کو بتایا تو دونوں دیکھنے کے لئے گاڑی سے اترے اور بڑے حیران ہوئے کہ یہ عمل اگر پانچ چھ گھنٹوں بعد ہوتا تو کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر آدھے پونے گھنٹے کے اندر کیڑے مکوڑوں کا لاش کے کان ناک منہ میں گھسنا یہ میرے اللہ کا نظام احتساب ہے
صادق شاہ نہائت بیہودہ زندگی گذارنے کے بعد بے گناہ معصوم لوگوں کی بددعاؤں سے اپنے منطقی انجام کو پہنچا، اس کی موت پر کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوئی، وہ لمحات دیکھنے کے تھے جب اپنے نام اور اپنے کرتوتوں کی دہشت سے لرزا دینے والے صادق شاہ کی لاش میونسپل کمیٹی خان پور کی مسجد کے سامنے والے درخت کے نیچے ایک تختے پر پڑی تھی اور لاش پر سوائے دو کانسٹیبلوں (ایک غلام فرید بھٹی جو اب سب انسپکٹربن چکا ہے اور دوسرا فدا عباسی جو وفات پاگیا ہے) اور بلدیہ خان پور کے چار جمعدار وں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
فا عتبرو یا اولی الا بصار (القران)
اے آنکھ والو عبرت حاصل کرو!!
صادق شاہ کی نماز جنازہ بلدیہ خان پور کی مسجد کے امام حافظ قمرالدین نے پڑھائی نمازجنازہ میں بلدیہ کے عملہ سمیت پندرہ سے بیس لوگوں نے شرکت کی، پولیس نے پوری کوشش کی کہ یہ بات عام نہ ہوکہ صادق شاہ کی لاش اس وقت بلدیہ خانپور میں موجود ہے وگرنہ خامخواہ ہی لوگوں کا جم غفیر اس کی لاش کو دیکھنے کے لئے امڈ پڑتا، اس کی تجہیزوتکفین گو بلدیہ خان پور کے ذمہ تھی مگر اسکے باوجود پولیس کانسٹیبل غلام فرید بھٹی (جو اس وقت سب انسپکٹر بن کر تھانہ سٹی خان پور میں تعینات ہیں) وہ آخر تک موجود رہے، ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم چپ رہے منظور تھاپردہ اپنا۔
صادق شاہ کو آفیسر کلب خان پور کے سامنے اور وٹرنری ہسپتال کی بیک سائڈ پر جو قبرستان ہے اس میں دفنایا گیا تھا، مجھے اس کی قبر کا پتہ ہے اورکرتوتوں کا بھی، کیا آپ یقین کریں گے کہ میں نے اپنی جوانی میں مرنے کا بعد کیا ہوگا؟ اور قبر کا عذاب نامی کتابیں پڑھی ہوئی تھیں، ان دنوں میرا گھر محلہ ٹھٹھاراں میں تھا اور میرا اس راستے سے گذر زیادہ ہوتا تھا میں جب بھی وہاں سے موٹر سائیکل پرگذرتا تو صادق شاہ کی قبر کی جانب ضرور دیکھتا کہ کب آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے؟ کافی عرصہ تک جب ایسا کوئی منظرمجھے دیکھنے کو نہ ملا تو میں نے ایک دن رات کو دیکھنے کا فیصلہ کیا اور رات کے بارہ بجے قبرستان جا پہنچا
مگر وہاں ایسا ویسا کچھ نظر نہیں آیا۔
گو آج ا س چھٹی قسط میں صادق شاہ کا معاملہ بظاہر ختم ہوگیاہے مگر صادق شاہ کے دو ساتھیوں اللہ ڈتہ بوہڑ اور عبدالحمید عرف حمیدے ماچھی کا خان پور پولیس سے جو ٹکراؤ ہوا وہ ہے خان پور کی تاریخ کا پہلا اور ابھی تک آخری اصلی پولیس مقابلہ،ہم نے پہلی بار دیکھا کہ دشمن دلیرہو تو پھر تنخواہ دار پولیس اس کا سامنا کس طرح کرتی ہے؟ کس طرح دو افراد نے محصور ہوکر بھی تین گھنٹے سے زائد وقت تک پولیس کو تگنی کا ناچ نچایا اور آخرکار پولیس کو قرآن اور کلمے کا سہارا لے کر اسے باہر نکالنا پڑا اور پھر؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ یہ سب کچھ ہم آپ کو پڑھائیں گے مگر ایسا لگے کا آپ پڑھ نہیں رہے بلکہ یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔

قسط نمبر 5 نیچے لنک میں

خطرناک ڈکیت گروہ کا سرغنہ اور 40افراد کا قاتل صادق شاہ ڈکیت کیوں بنا تھا ، موت سے قبل جیل میں صادق شاہ کی وہ خواہش جسے سن کر پولیس بھی حیران رہ گئی

قسط نمبر 4 نیچے لنک میں

1992 میں جیل میں تشکیل پانے والے خطرناک ڈکیت گروہ اور اس کے سرغنہ صادق شاہ کے شیطانی کارناموں کی دل دہلا دینے والی داستان

قسط نمبر 3 نیچے لنک میں

ایک معمولی سا چور پہلے ڈاکو ، پھر فرمائشی ڈکیت اور پھر سیاسی شخصیات کو قتل کرنے والا کرائے کا خونخوار قاتل کیسے بنا ،صادق شاہ کس کا بیٹاتھا ؟

قسط نمبر 2 نیچے لنک میں

اجرتی قاتل اور خوفناک ڈاکو صادق شاہ کی گرفتاری کی 30سال پرانی ناقابل یقین کہانی ، صحافی قمر اقبال جتوئی کی زبانی

قسط نمبر 1 نیچے لنک میں

90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا

Tags: Sadiq Shahصادق شاہ ڈاکو
ویب ڈیسک

ویب ڈیسک

Next Post
90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا

خطرناک ڈاکو صادق شاہ کی موت کے بعداس کے خونخوار ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے پولیس مقابلے کی سنسنی خیز کہانی ، پیشے سے درزی اور مستری دہشت ناک ڈکیت کیسے بنے 

اسماعیل ہنیہ کون تھے اور اسرائیل نے انہیں ٹارگٹ کیوں کیا؟اسلام آباد سےزاہد بلوچ کی رپورٹ

اسماعیل ہنیہ کون تھے اور اسرائیل نے انہیں ٹارگٹ کیوں کیا؟اسلام آباد سےزاہد بلوچ کی رپورٹ

ججوں، وزیروں اور بیوروکریٹس کےزیر استعمال کتنی لگژری گاڑیاں اور ماہانہ سیکیورٹی اخراجات کتنے ، محسن نقوی نے تفصیلات بتا دیں 

ججوں، وزیروں اور بیوروکریٹس کےزیر استعمال کتنی لگژری گاڑیاں اور ماہانہ سیکیورٹی اخراجات کتنے ، محسن نقوی نے تفصیلات بتا دیں 

بجلی معاملہ ،با ت ڈی چوک سے آگے نکل گئی ، ملک گیر تحریک کا خدشہ ، جماعت اسلامی/ پی ٹی آئی درمیان اتحاد ؟ حکومت کی ٹلی بجانے کا اعلان

بجلی معاملہ ،با ت ڈی چوک سے آگے نکل گئی ، ملک گیر تحریک کا خدشہ ، جماعت اسلامی/ پی ٹی آئی درمیان اتحاد ؟ حکومت کی ٹلی بجانے کا اعلان

شہراقتدار سے بڑی خبر ، اسلام آباد کلب میں کروڑوں کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف، ان ہائوس اسکیموں پر خلاف ضابطہ 30 کروڑ روپے خرچ کیے گئے

شہراقتدار سے بڑی خبر ، اسلام آباد کلب میں کروڑوں کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف، ان ہائوس اسکیموں پر خلاف ضابطہ 30 کروڑ روپے خرچ کیے گئے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In