ایک 15 سالہ اسکول کے طالبعلم کو اپنے ہم جماعت ہاروی ولگوس کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، جس میں کم از کم 16 سال قید کا عرصہ طے کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ، جسے بی بی سی اور اسکائی نیوز سمیت متعدد برطانوی میڈیا اداروں نے نمایاں طور پر رپورٹ کیا، پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اسکولوں میں بڑھتے ہوئے چاقو حملوں کے واقعات پر شدید تشویش کو دوبارہ جنم دیا ہے۔

محمد عمر خان نے اپنے ساتھی طالبعلم ہاروی کو شیفیلڈ کے ایک سیکنڈری اسکول میں لنچ کے وقفے کے دوران چاقو کے وار سے ہلاک کر دیا۔ جج کی جانب سے اس کی شناخت ظاہر کرنے کے فیصلے نے قانونی اور سماجی دونوں سطحوں پر اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہاں اس پیچیدہ مقدمے کی تمام تفصیلات پیش ہیں:
متاثرہ کون تھا؟
ہاروی ولگوس 15 سالہ طالبعلم تھا جو شیفیلڈ کے آل سینٹس کیتھولک ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ اس کے اہلِ خانہ نے اسے “مہربان، محبت کرنے والا اور سب کا پیارا” قرار دیا۔ 3 فروری کو اسے اسکول کے لنچ بریک کے دوران چاقو کے وار سے قتل کر دیا گیا۔
قاتل کون تھا؟
قاتل بھی اسی اسکول کا 15 سالہ طالبعلم تھا، جس کی شناخت محمد عمر خان کے طور پر ہوئی۔ برطانوی قانون کے تحت اس کی کم عمری کی وجہ سے شناخت شروع میں خفیہ رکھی گئی تھی، تاہم جج نے عوامی مفاد کے پیش نظر اس کی گمنامی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟
جج مسز جسٹس ایلنبوگن نے قرار دیا کہ نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے چاقو حملے ایک “اہم عوامی مسئلہ” ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “اس کیس کے حالات وسیع عوامی دلچسپی کے حامل ہیں”، لہٰذا محمد عمر خان کی شناخت ظاہر کرنا عوامی مفاد میں ہے۔
مہلک حملے کی وجہ کیا بنی؟
عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کے مطابق، اسی دن ہاروی اور خان کے درمیان ایک جھگڑا ہوا تھا—جسے دونوں نے “بیف” یا “جھگڑا” کہا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں خان کو ایک راہداری میں ہاروی کو دھکا دیتے اور بعد میں اسکول کی کینٹین میں چاقو لہراتے ہوئے دکھایا گیا، جس کے بعد اس نے حملہ کیا۔

کیا حملہ منصوبہ بندی کے تحت تھا؟
دفاع کے وکیل کا کہنا تھا کہ حملہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا بلکہ خان نے اشتعال میں آ کر یہ حرکت کی کیونکہ اسے خطرہ محسوس ہوا۔ تاہم، استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی ثبوت نہیں کہ ہاروی نے کوئی فوری خطرہ پیدا کیا تھا، اور خان کے اقدامات سوچے سمجھے اور انتقامی نوعیت کے تھے۔
کیا ملزم پہلے بھی اسکول ہتھیار لاتا تھا؟
عدالت کو بتایا گیا کہ خان ماضی میں بھی اسکول میں چاقو لاتا تھا۔ اس کی والدہ نے ایک بار اس کے اسکول بیگ میں ایک کلہاڑی بھی پائی تھی۔ گواہوں نے بیان دیا کہ خان اکثر ایسے برتاؤ کرتا جیسے وہ ہتھیار ساتھ رکھتا ہو۔
حملے کے بعد خان نے کیا کہا؟
پولیس کے آنے کا انتظار کرتے ہوئے اس نے مبینہ طور پر کہا: “میں ٹھیک نہیں ہوں، میری ماں میرا خیال نہیں رکھتی۔” دفاع کے مطابق خان ذہنی دباؤ اور دیگر طلباء کی جانب سے بد تمیزی اور مار پیٹ کا شکار تھا، اگرچہ ہاروی ان میں شامل نہیں تھا۔
ہاروی کے اہلِ خانہ کا ردِعمل کیا تھا؟
ہاروی کی بہن صوفی نے عدالت میں نہایت جذباتی بیان دیا: “یہ صرف ہاروی کے خلاف جرم نہیں تھا، بلکہ اُن سب کے خلاف جرم تھا جو اُس سے محبت کرتے تھے۔” اُس نے اس قتل کو “بے رحمانہ اور غیر انسانی” قرار دیا اور بتایا کہ ان کے نانا، جو انصاف کی تلاش میں مقدمے میں شریک تھے، سزا سنائے جانے سے صرف ایک ہفتہ قبل انتقال کر گئے۔

سزا کے وقت دفاع کا مؤقف کیا تھا؟
خان کے وکیل نے “ایک نوجوان بے گناہ زندگی کے المناک اور بے معنی نقصان” پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ خان نے ذلت اور ذہنی دباؤ برداشت کیا تھا، “لیکن یہ اُس دکھ کے برابر نہیں جو ہاروی کے اہلِ خانہ کو ہے۔” دفاع نے مؤقف اختیار کیا کہ خان نے خوف کے تحت عمل کیا، قتل کے ارادے سے نہیں۔
استغاثہ کا مؤقف کیا تھا؟
استغاثہ کے مطابق، خان نے غصے میں آ کر جان بوجھ کر حملہ کیا اور سنگین نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ خان کے پاس کئی مواقع تھے کہ وہ پیچھے ہٹ جائے، مگر اس نے تشدد کو بڑھانے کا انتخاب کیا۔
اب کیا ہوگا؟
جج نے عمر قید کے ساتھ کم از کم 16 سال قید کی سزا سنائی۔ اس کے بعد ہی خان کسی ضمانت یا رہائی کا اہل ہو سکے گا، تاہم یہ سزا اس کے جرم کی سنگینی اور عمر دونوں کو مدنظر رکھ کر دی گئی ہے۔
یہ مقدمہ قومی سطح پر کیوں اہم ہے؟
اس کیس نے برطانیہ میں اسکولوں میں بڑھتے ہوئے چاقو حملوں کے بحران پر دوبارہ بحث چھیڑ دی ہے۔ اس نے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری، طلباء کی حفاظت، اور یہ سوال بھی اجاگر کیا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث کم عمر مجرموں کو گمنامی کا حق دیا جانا چاہیے یا نہیں۔






