اسلام آباد (رانا اشرف ) آج ایک خبر آئی کہ گوجرانولہ کے ایک سب انسپکٹر نے اپنے ہی تھانے کے محرر پر فائرنگ کر دی لیکن وہ بال بال بچ گیا ۔یہ سن کر سوچنے پر مجبور ہوا کہ آخر کیوں یہ حادثہ ہوا ہمارے لوگ پولیس سے نفرت کرتے ہیں ہر ایک کو جب تھانے میں کام پڑتا ہے تو پہلے سے کوئی سفارش ڈھونڈتا شروع کر دیتا ہے کہ اس کا کام آسانی سے ہو جائے یا اگر کسی کو تھانے سے بلاوا آجائے تو وہ کسی وزیر مشیر یا تگڑا سا وکیل لے کر تھانے جاتا ہے۔ تھانیدار اور تھانے کی اتنی دہشت ہوتی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بہت بھیانک ہے ۔
یہ جو واقعہ گوجرانولہ میں پیش آیا سب انسپکٹر شاہد غوث روٹین کی گشٹ ڈیوٹی کر کے واپس آیا تو گھر جانے کا سوچ رہا تھا کہ محرر صہیب نے کہا کہ تم نے ابھی ڈیوٹی پر لاہور ہائیکورٹ جانا ہے جس پر دونوں میں تلخ کلامی ہو گئی سب انسپکٹر طیش میں آگیا ،گالیاں اور دھمکیوں کا تبادلہ ہوا سب انسپکٹر اپنے دفتر میں گیا اور پسٹل اٹھا کر لایا اور محرر پر فائرنگ کر دی۔ محر ر نے میز کے نیچے چھپ کر جان بچائی بعد میں سب انسپکٹر کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا اب یہ واقعہ کیوں ہوا اس کی کیا وجوہات ہیں پولیس میں نان کیڈر لوگ جو بھرتی ہوتے ہیں کام بھی وہ کرتے ہیں پولیس مقابلے بھی کرتے ہیں شہید بھی وہ ہوتے ہیں لیکن اس محکمہ کے اعلی افسران ان کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اور پرانے زمانے کے زر خرید غلاموں سے بھی سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں جس سے پولیس فورس ٹینشن کا شکار رہتی ہے جس کا بدلہ وہ ناکوں پر کھڑے ہو کر عوام سے لیتے ہیں یا تھانے میں آنے والے سائلین سے ۔
تھانیدار 24 گھنٹوں کی رات دن ڈیوٹی کر کے پاگل ہو جاتے ہیں۔ رات کو گشٹ کی ڈیوٹی سے آ کر پارٹیوں کو سننا شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی یہ معاملہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو محرر کی طرف سے حکم ملتا ہے کہ ایس پی کے دفتر سے بلاوا ہے فوراً پہنچے وہاں، ایس پی صاحب گھر بیٹھے ہوتے ہیں اور تھانیدار انتظار میں ذلیل ہو رہا ہوتا ہے ،وہاں پر پیشی میں ایس پی یا تو ٹارگٹ دیتا ہے یا بے عزتی کرتا ہے اور ظلم یہ ہے جو اس تھانیدار کے ملزم ایس پی کے دفتر میں کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں اور یہ ملزم بن کر ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے ۔کئی دفعہ اعلی افسران سے پیشی کے دوران ڈسمس، معطل سروس کی کٹوتی جیسے سزائیں لے کر آتا ہے، پیشی بھگت کر جب واپس آتا ہے تو آواز آتی ہے کہ لڑکی اغوا ہو گئی وہاں پہنچے، جب وہاں سے آتا ہے تو حکم ملتا ہے ڈکیتی ہوگئی ہے فوراً موقع پر پہنچے، اس سے فارغ ہو کر آئے تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی قتل ہو گیا ہے، وہاں لاش کا میڈیکل کروا کر واپس آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ابھی وزیراعظم، گورنر، صدر یا کسی بڑے وی آئی پی نے گزرنا ہے تو پروٹوکول ڈیوٹی دینی ہے۔
ادھر سے آتا ہے تو حکم ملتا ہے کہ فلاں علاقے میں لاوارث لاش ملی ہے وہاں پہنچے ۔بیچارہ مشکل میں آ جاتا ہے اب اس لاش کی تدفین وغیرہ اور کئی دوسرے اخراجات جیب سے ادا کرتا ہے اس لیے اکثر لاوارث لاش کو تھانے ایک دوسرے کی حدود میں پھینکتے رہتے ہیں۔ بیچارہ وہاں سے ذلیل ہو کے آتا ہے تو کسی بڑے افسر کا میسج ملتا ہے کہ ان کی فیملی نے اس کے علاقے کے کسی بڑے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانےجانا ہے ایک تو بل کا انتظام کرے اور دوسر ان کو پروٹوکول دے۔ اس کے بعد اس کی پرفارمنس پوچھی جاتی ہے کہ منشیات کے مقدمے کیوں کم دیے ہیں، اسلحہ کے مقدمے کیوں کم ہیںتو پھر تفتیشی اپنی جیب سے چرس خرید کر کریمنل لوگ پکڑ کر ان پر ڈال کا ٹارگٹ پورا کرتا ہے۔
اگر کسی بڑے منشیات فروش پر ہاتھ ڈال لے تو وہ اس کو معطل یا ٹرانسفر کروا دیتے ہیں ۔اب سونے کے لیے ان کے دفتر میں ہی ایک چارپائی لگائی ہوتی ہے جس پر وہ کوشش کرتا ہے کچھ گھنٹے آرام کر لیں لیکن پھر بھی کوئی ایمرجنسی کال آ جاتی ہے ۔اس کے بعد عدالتوں میں چالان پیش کرنا ،ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے گاڑی کا انتظام کرنا جو بعض اوقات جیب سے کرنا پڑتا ہے یا مدعی سے بھی مل جاتا ہے اس کے بعد مسجدوں مندروں اور گرجا گھروں میں ڈیوٹی بھی دینی پڑتی ہے ۔پورا پورا دن وردی پہن کر گذارنا پڑتا ہے۔ افسران کے غیر قانونی احکامات یعنی موبائل خرید کر دینا ،رشتہ داروں کی گاڑیوں کی مرمت اور پٹرول کا بندوبست کرنا اور بعض اوقات افسران کی بیگمات کے مہنگے کپڑے خرید کر دینا بھی تھانیدار کی ڈیوٹی ہے جس کے لیے اس کو کسی کو قربانی کا بکرا بنانا پڑتا ہے، کرپشن کرنا پڑتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فیلڈ میں نوکریاں کر رہے ہیں اور عوام سے گالیاں بھی کھاتے ہیں۔
اب تصویر کا تیسرا رخ ایک بی اے پاس کرنے کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کر کے ایک اے ایس پی بھرتی ہوتے ہیں جس میں خواتین بھی آ رہی ہیں بس ان کی حکمرانی کا دور شروع ہو جاتا ہے، عالیشان دفتر بے تحاشہ اسٹاف اور سرکاری گاڑی سرکاری رہائش ،دفتر آئیں یا نہ آئیں کوئی پوچھنے والا نہیں ایئرکنڈیشن کمرے میں بیٹھ کر ملک کے کرائم کنٹرول کرتے ہیں ۔کوئی پریشر کوئی ٹینشن نہیں کوئی خوائیش ہو تو تھانے کا ایس ایچ او زکوٹا جن بن کر پوری کرتا ہے اگر نہ کریں ایک آڈر پر ایس ایچ او معطل ہو جاتا ہے۔ سارا دن ایلیٹ کلاس سے ملاقاتیں گپ شپ اور جو حکومت اقتدار میں ہو اس کے وزرا کی چاپلوسی کرنا، اپنے بچوں بیوی فیملی کے لوگوں کے لیے پولیس کا پروٹوکول۔
اب جب پرفارمنس کی بات ہو تو بہت ہی آسان ایک دو ایس ایچ او فارغ اور تین چار تھانیدار ڈسمس ۔ان افسران کی بس ایک نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ڈیوٹی ہے ۔ تھانیداروں کو دفتر میں بلا کر ملزمان کے سامنے پیسے لینے کا الزام لگا کر بے عزتی کرنا ۔ جب پولیس افسر دفتر سے نکلنے کا بتاتا ہے توگاڑی دفتر کے سامنے لگوانا، اسٹاف کی ڈوریں لگ جاتی ہیں کہ صاحب کہیں ناراض نہ ہو جائیں ۔یہ وہ کام ہے اب جو مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والے کرتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ تھانیدار کیا کرے۔ وہ عوام کو ذلیل کرے اپنے ساتھیوں پر فائرنگ کرے گا۔ خود کشی کرے گا۔ یہ مسئلہ صرف گوجرانولہ کے سب انسپکٹر شاہد غوث کا نہیں پورے پاکستان کی پولیس کے تھانیداروں کا ہے۔