کابینہ کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں وزیروں کا کہنا تھا کہ آئل کمپنیوں کے فراڈ اور لوٹ مار میں شامل جن سرکاری افسران اور دیگر کے نام انکوائری رپورٹ میں شامل ہیں انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔
معروف صحافی اور اینکر رؤف کلاسرا نے اپنے ٹی وی پروگرام “مقابل پبلک کے ساتھ “ میں کابینہ اجلاس کی اندرونی خبر دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں آئل اسکینڈل انکوائری پر خوب بحث ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ پہلے ایک کمیٹی اس رپورٹ کا جائزہ لے کیونکہ ایف آئی اے کی شوگر کے متعلق رپورٹ کے بعد بھی جلدی سے ایکشن لیا گیا تھا لیکن نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں تمام لوگوں کو گرفتار کرنا چاہئے کیونکہ ان سب پر بڑے سنجیدہ الزامات لگے ہیں جس سے پاکستان اور عوام کو اربوں روپوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
رؤف کلاسرا کے مطابق شیری مزاری نے بھی رپورٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انکوائری رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بہت ساری آئل کمپنیوں نے حکومتی عہدے داروں کے ساتھ مل کر تیل کی قلت پیدا کی جس سے بحران پیدا ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ تیل کی قیتمیں جب عالمی مارکیٹ میں بہت نیچے تھیں اس وقت پاکستان میں تیل کی قمیتیں بہت اوپر تھیں۔ اس دوران مقامی تیل کمپنیوں کو اربوں کمانے کا موقع سرکاری طور پر فراہم کیا گیا۔
اسی طرح سیکرٹری پٹرولیم اسد حیاالدین نے بیرون ملک سے تیل منگوانے پر پابندی لگا دی اور کہا گہا کہ مقامی ائل کمپنیوں سے تیل خریدا جائے اور یوں سستا تیل خریدنے کا موقع ضائع کر دیا گیا۔
اس وقت بھارت نے 3 کروڑ 70 لاکھ ٹن آئل پروڈکس انہی دنوں بہت سستی خرید کر ذخیرہ کر لیں اور اربوں ڈالرز بچا لیے مگر پاکستان نے جان بوجھ کر یہ موقع ضائع کیا۔
رپورٹ میں لکھا گیا کہ یہ نقصان دانستہ طور پر کیا گیا تاکہ آئل کمپنیاں جو پہلے تیل منگوا چکی تھیں انہیں کھل کر تیل مرضی کی قمیت پر بیچنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ اس پر کابینہ کے کچھ ارکان کی یہ تجویز مان لی گئی کہ فوری گرفتاریوں کے بجائے رپورٹ پر ایک کمیٹی بنا دی جائے جو اس کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کرے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی کے سربراہ اسد عمر ہوں گے جب کہ ممبران میں شیریں مزاری اور شفقت محمود شامل ہوں گے۔
رؤف کلاسرا کے مطابق کابینہ اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ اب تک پنجاب کے پاس 2600 ارب روپے جا چکے ہیں جبکہ سندھ کو 1300 ارب، خیبرپختونخوا کو 900 ارب روپے اور بلوچستان کو 500 ارب روپے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں فواد چوہدری نے سوال اٹھایا کہ بلوچستان کی سوا کروڑ کی آبادی ہے، اگر صوبے کو دی گئی رقم کا ہر شخص پر بھی تقسیم کیا جائے تو اب تک شخص امیر ہو چکا ہوتا۔ یہی صورتحال دیگر صوبوں کی ہے۔