اسلام آباد(عمران مگھرانہ) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہوا۔ چیئرمین نیب کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔
ڈی جی نیب نے کہا کہ چیئرمین نیب آنے کے لئے تیار تھے لیکن ان کا کوروناٹیسٹ مثبت آیا ہے۔چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کمیٹی فیصلہ کر لے ڈی جی نیب سے بریفنگ لینی ہے یا چیئرمین نیب کا انتظار کرنا ہے۔ ارکان کمیٹی نے بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا جس کے بعدڈی جی نیب حسنین احمد نے پی اے سی کو بریفنگ دی۔ڈی جی نیب نے کمیٹی کو بتایا کہ نیب نے 2021 تک 821 ارب57کروڑ روپے کی ریکوری کی ہے۔
کمیٹی میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق نیب کی ان ڈائریکٹ ریکوریز 5سو ارب اور65کروڑ روپے کی ہیں۔نیب کی ڈائریکٹ ریکوریز 76 ارب 95کروڑروپے ہیں۔نیب کو ڈائریکٹ ریکوریز کی مد میں 50ارب روپے سے زائدکی رقم پلی بارگین سے حاصل ہوئی۔نیب کی ڈائریکٹ ریکوریز میں ساڑھے 26ارب روپے رضاکارانہ واپسی کے ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق بیوروکریٹس سے رضا کارانہ طور پر رقم کی واپسی اور پلی بارگین کے ذریعے نیب نے 8ارب 17کروڑ روپے کی ریکوری کی۔کاروباری شخصیات سے رضا کارانہ طور پر اور پلی بارگین کے ذریعے 24ارب 31کروڑ روپے کی ریکوری کی جبکہ دیگر سے رضا کارانہ طور پر رقم کی واپسی اور پلی بارگین کے ذریعے 21ارب 68کروڑ روپے کی ریکوری کی۔ دستاویزات کے مطابق سیاستدانوں سے رضا کارانہ طور پر رقم کی واپسی اور پلی بارگین کے ذریعے نیب نے صرف 47کروڑ روپے کی ریکوری کی ہے۔
دستاویزات کے مطابق ہاؤسنگ سو سائٹیز سے نیب نے 17ارب49کروڑ روپے کی ریکوری کی، ہاؤسنگ سو سائٹیز کے1لاکھ متاثرین تھے۔پونزی اسکیموں میں ہونے والے فراڈ سے نیب نے 7ارب44کروڑ روپے کی ریکوری کی۔پونزی اسکیموں کے فراڈ سے 66ہزار سے زائد متاثرہوئے تھے۔کم قیمت اسکیموں کی مد میں فراڈ کرنے والوں سے نیب نے66کروڑ روپے سے زائد کی ریکوری کی جبکہ کم قیمت اسکیموں کے فراڈ میں آنے والے متاثرین کی تعداد 11ہزار سے زائد تھی۔
دستاویزات کے مطابق بینک لون ڈیفالٹ کرنے والوں سے نیب نے 121ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی جبکہ نیب نے بینکوں کےBad Debtsہوئے قرضوں میں 60ارب روپے کی ریکوری کی۔نیب کیسوں میں عدالتوں کی طرف سے کیے گئے جرمانوں کی مد میں نیب نے 46ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔پی سی بی ایل کیس میں نیب نے 16ارب69کروڑ روپے کی ریکوری کی ہے۔نیب راولپنڈی ریجن نے 294ارب روپے،نیب کراچی ریجن نے سوا88ارب روپے،نیب لاہور ریجن نے 84ارب روپے،نیب سکھر ریجن نے پونے26ارب روپے،نیب ملتان ریجن نے سوا4ارب روپے،نیب خیبر پختونخوا ریجن نے ساڑھے3ارب روپے اورنیب بلوچستان ریجن نے51کروڑ روپے کی ’ان ڈائریکٹ‘ یکوری کی۔نیب نے 811ارب 50کروڑ روپے وفاقی و صوبائی محکموں اور متاثرین کو واپس کر دیے، بچ جانے والے10ارب روپے عدالتی فیصلوں یا منظوری کے بعد تقسیم کیے جائیں گے۔ رکن کمیٹی ایاز صادق نے کہا کہ ہمیں سالانہ اور پارٹی وائز تفصیلات دی جائیں۔
ایاز صادق نے سوال اٹھایا کہ پلی بارگین والے کتنے سرکاری افسران ہیں جو واپس نوکری پر ہیں۔کیا انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے یا کام کر رہے ہیں؟ڈی جی نیب نے کمیٹی کو بتایا کہ پلی بارگین والے سزا یافتہ ہیں اور وہ سروس میں نہیں ہیں جبکہ رضاکارانہ طور پر پیسے واپس کرنے والوں میں سے کچھ لوگ سروس میں ہوں گے۔چیئرمین پی اے سی رانا تنویر نے کہا کہ آپ چھان بین کریں جورضاکارانہ واپسی والے نوکری میں ہیں آپ حکومت کو لکھ سکتے ہیں ان کو نوکری سے فارغ کریں۔ وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا کہ اس کے لئے قانون میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔
ڈی جی نیب نے کہا کہ یہ ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہے ان کیخلاف کارروائی کر کے جان چھڑائیں۔رکن کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا کہ انکوائریز میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اس کا ٹائم فریم ہوناچاہیے چیئرمین پی اے سی رانا تنویر نے کہا کہ سب سے کم کرپشن بلوچستان میں ہوئی ہے۔ رکن کمیٹی منزہ حسن نے کہا کہ میں نے بھی یہ نوٹ کیا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ بلوچستان کو پیسے کم دیتے ہیں۔چیئرمین پی اے سی رانا تنویر نے سوال اٹھایا کہ ملک ریاض سے جو 190ملین پاؤنڈز کی وصولی کی ہے وہ کہاں ہے؟چیئرمین پی اے سی نے نیب کو تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔پی اے سی ارکان نے ریکوریز کے حوالے سے اپنے سوالات نیب کو لکھوا کر نیب سے مزید تفصیلات طلب کر لیں۔