اسلا م آباد (زاہد بلوچ سے ) اپنی دہائیوں کی طویل عوامی خدمات کے دوران، ابراہیم رئیسی نے کئی سرکاری شاخوں میں متعدد اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔آپ نومبر 1960 میں مشہد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔7 جنوری 1978 کو ایک اخبار میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کی توہین اور اس کے نتیجے میں عوامی تحریکوں کے عروج کے بعد رئیسی احتجاجی اجتماعات میں شامل ہوگئے۔
اس دوران انہوں نے انقلابی سرگرمیوں میں مصروف ، رہائی پانے والے یا جلاوطن انقلابی علماء سے رابطہ برقرار رکھا اور تہران یونیورسٹی میں علماء کے دھرنے سمیت اہم اجتماعات میں شرکت کی۔تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ابراہیم رئیسی کا انتظامی کیریئر 1980 میں شروع ہوا جب وہ کاراج کے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے طور پر مقرر ہوئے، بعد میں شہر کے اٹارنی بن گئے۔1985 میں، وہ اپنے عدالتی دور کے آغاز کے موقع پر تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بن گئے، 1989 سے 1994 تک رئیسی نے تہران میں عدلیہ کے پہلے نائب کے طور پر خدمات انجام دیں۔انہیں 1994 میں ایران کی جنرل انسپکشن آرگنائزیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا، اس عہدے پر وہ 2004 تک فائز رہے۔رئیسی نے 2004 سے 2014 تک عدلیہ کے پہلے نائب کے طور پر عدلیہ کے دو سربراہوں کے تحت کام کیا۔ اس حیثیت میں وہ عدلیہ کے ادارے اور انتظامیہ کی نگرانی کے ذمہ دار تھے۔ 2014 سے مارچ 2015 تک انہوں نے ایران کے اٹارنی جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔مارچ 2016 میں، رئیسی کو رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آستان قدس رضوی کا متولی مقرر کیا تھا۔ اپنے تین سالہ دور میں، انہوں نے امام رضا کے روضہ مبارک پر خدمات کو بڑھانے کے لیے اہم اقدامات کیے۔7 مارچ 2019 کو رئیسی کو آیت اللہ خامنہ ای کے حکم سے عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اپنے دور میں، رئیسی نے عدالتی اصلاحات میں اہم پیش رفت کی، اقتصادی بدعنوانی کو فیصلہ کن طریقے سے نمٹانا اور عدالتی کارکردگی کو بڑھانا اہم اقدامات تھے جن پر انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای سے تعریف حاصل کی۔جون 2021 کے صدارتی انتخابات میں رئیسی نے 18 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور ایران کے 13ویں صدر بن گئے۔برطانوی نشریاتی ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایران کے اندر سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحرانوں کی وجہ سے اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ایران کے مذہبی حکمرانوں کو تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام اور یوکرین کی جنگ کے دوران روس کے ساتھ اس کے گہرے فوجی تعلقات پر بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔جب سے 7 اکتوبر کو ایران کی اتحادی حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں غزہ پر اسرائیل کا حملہ ہوا، پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ منسلک گروپوں میں افراتفری پھیل گئی۔سید ابراہیم رائیسی کا شمار ملک کے85سالہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای جو 1989سے سپریم لیڈر ہیں کے متوقع جانشینوں میں کیا جاتا تھا ۔یاد رہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ گزشتہ روز تبریز شہر سے 100 کلو میٹر دور پیش آیا تھا، حادثے کے وقت ہیلی کاپٹر میں ایران کے وزیر خارجہ حسین عامر عبد الہیان، گورنر تبریز اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ترجمان سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی سوار تھے۔ایرانی میڈیا نے ہیلی کاپٹر حادثے میں صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان اور گورنر تبریز کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کر دی ہے جبکہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا جسد خاکی بھی جائے حادثہ سے مل گیا ہے جسے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ایرانی رہبر اعلیٰ نے محمد مخبر کو عبوری صدر مقرر کیا ہے اور ملک میں پانچ روز سوگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔