• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
پیر, ستمبر 22, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home ایکسکلوسو

اجرتی قاتل اور خوفناک ڈاکو صادق شاہ کی گرفتاری کی 30سال پرانی ناقابل یقین کہانی ، صحافی قمر اقبال جتوئی کی زبانی

by ویب ڈیسک
جولائی 17, 2024
in ایکسکلوسو, تحقیقاتی رپورٹس
0
90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا
0
SHARES
1.7k
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

رحیم یار خان ، ملتان مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے ڈکیت گروہ کے سرغنہ اور اجرتی قاتل صادق شاہ کی گرفتاری کی ناقابل یقین مگر دہشت انگیز کہانی ، پولیس سمیت کوئی بھی اسے ڈاکو ماننے کو کیوں تیار نہیں تھا،صحافی قمر اقبال جتوئی پولیس کے 30سال پرانے ریکارڈ سے ہوشر با سچی کہانی نکال لائے ۔۔!
قسط نمبر 2۔۔۔!
صادق شاہ اور اس کا گروہ ضلع رحیم یار خاں میں ایکسپوز بھی ہوچکاتھا اور 19جنوری کو صادق شاہ کے دو ساتھی خان پور کے کونسلر کو قتل کرنے کی واردات میں زخمی بھی ہوچکے تھے، اب یہ علاج کروانے کے بعد کچھ ریسٹ کرنا چاہتے تھے، جس کے لئے انہوں نے انتخاب کیا جتوئی شہر سے منسلک موضع قیصر غزلانی کا کیونکہ وہاں ستاری گوپانگ کا ایک یار غیر نام یاد نہیں آرہا مگر قوم کا غزلانی تھا یہ یاد ہے اوراب یہ لوگ بڑی ڈکیتوں کو چھوڑ کر اپنا گذارا کررہے تھے صرف موٹر سائیکل اور نقدی چھیننے پر، ایسی ہی ایک واردات کے بعد صادق شاہ پکڑا گیا، کیسے؟ اس کی منظر کشی کی کوشش کی ہے، یہ بھی قارئین کو بتاتا چلوں کہ جتوئی شہر میرے آباؤاجداد کا آبائی علاقہ ہے اگر اس جگہ کے علاوہ وہ کہیں اورپکڑا جاتا تو مجھے وہ ایکسیس وہاں حاصل نہ ہوتی جو جتوئی شہر میں ہوئی تھی، میں اس کو پکڑنے والے سب کرداروں سے اس وقت مل کر آیا تھا، کیونکہ ان دنوں میں روزنامہ پاکستان لاہور سے وابستہ تھا، ادارے نے مجھے سنڈے میگزین کے لئے اسٹوری مرتب کرنے کا کہا تھا، وہ اسٹوری فائل کرنے کے لئے مجھے سخت محنت کرنی پڑی جو آج بھی میرے کام آرہی ہے، اب میں شروع کروں صادق شاہ کی گرفتاری۔
پانچ اضلاع کی پولیس صادق شاہ کو ڈھونڈ رہی تھی، کسی کے پاس صادق شاہ کی کوئی تصویر نہیں تھی، صرف چند پرانے پولیس والے تھے جو صادق شاہ کو شکل سے پہچانتے تھے، واراتیں اور وہ بھی اتنی سنگین وارداتیں ہورہی تھیں کہ الامان و الحفیظ۔
خان پور میں ایک ایسا پولیس آفیسر تھا جس کواس کے ساتھی جن کہتے تھے، یعنی اس کے ساتھی مانتے تھے کہ یہ جو کام کرتا ہے وہ انسان کر ہی نہیں سکتا، یہ کام تو جن ہی کرسکتا ہے، اور وہ جن تھا مرحوم سب انسپکٹر چوہدری حفیظ اللہ، چوہدری حفیظ دن رات اس گروہ کے پیچھے تھا، وہ بھی صادق شاہ یا دیگر ساتھیوں کو شکل سے نہیں پہچانتا تھا، ایک ادبی ذوق رکھنے والا پولیس اہلکار مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجودسرائیکی زبان میں شاعری کرتا ہے، اسکا نام ہے عبدالرشید تبسم، اسکے بقول جب ہم 1994میں اس وقت کے دلیر اور دبنگ ایس ایچ او انسپکٹر منیرافضل کاں اور ڈی ایس پی رائے مقصود کھرل (مرحومین) کے حکم پر راتوں کو جاگ جاگ کر صادق شاہ اور اس کے ساتھیوں کی لوٹ مار اور عزتوں کی پامالی سے لوگوں کو بچانے یا اسے گرفتار کرنے کے لئے پکٹ لگاتے، ناکہ بندی کرتے، کبھی کبھار ریل کی پٹڑیوں پر پہرہ دے رہے ہوتے تھے تو وہ خود اپنے کسی ساتھی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہوکر آتا تھا اور پوچھتا، حال ڈیو او (خود کوگالی نکال کر) صادق شاہ پکڑیا گے یا کائنا؟ ہمارا جواب یقیناً ناں میں ہوتا تو وہ کہتا تھا، تہاڈی مہربانی، تہاڈی وجہ توں اساں شریف لوک رات دا آرام نال سُمدوں، رشید تبسم کے بقول وہ ہمارا شکریہ ادا کرتا اور ہم اس کا شکریہ، کہ کوئی تو ہے جو ہمارے جاگنے کی داد دے رہا ہے وگرنہ زیادہ تر لوگ تو ہم پر بس صرف تنقید کے نشتر ہی چلاتے تھے، یہ تو جب وہ گرفتار ہوکر خان پور آیا تو ہم میں سے اکثر نے پہچان لیا کہ یہ تو وہی بندہ جو ہمیں داد دے کر جاتا تھا، رشید تبسم صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ کو کبھی شک نہیں ہوا؟ تو اس نے کہا کہ آپ خود بھی اس سے ملے تھے کیا وہ شکل و شباہت سے کوئی خوفناک قسم کا ڈاکو کہیں سے بھی لگتا تھا؟ میرا جواب تھا کہ دوران ملاقات اگر وہ اپنے منہ سے بھی اعتراف کررہا ہوتا تھا کہ میں نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دئے تھے،تو مجھے شک پڑتا کہ یہ لمبی لمبی چھوڑ تو نہیں رہا؟
مگر دیگر شواہد کے بعد مجھے بھی یقین کرنا پڑا کہ واقعی یہ شیطانی کرتوت اسی کے ہی ہیں۔
صادق شاہ کی گرفتاری کیسے ممکن ہوئی؟
یکم مارچ 1994کو علی پور کا رہائشی محمد یوسف گوپانگ رات کے وقت علی پور سے شہر جتوئی کی جانب آرہا تھا گریڈ چوک سے پہلے راستے میں دو مسلح افراد نے اسے روک کراسلحہ کے زور پر موٹر سائیکل چھین لیا۔ موٹر سائیکل چھننا کوئی انوکھی بات تو نہیں تھی مگر گوپانگ برادری کے ایک سرکردہ بندے سے موٹر سائیکل کوئی چھین کر لے جائے یہ بات انہوں نے دل پر لے لی اور رات دن اپنے موٹر سائیکل کو ڈھونڈنے لگے، یاد رہے ان دنوں اتنے زیادہ موٹر سائیکل ہوتے بھی نہیں تھے اور وہ بھی یاماہا 100، 4مارچ گیارہ بجے کے لگ بھگ یوسف گوپانگ اپنے موٹرسائیکل کی تلاش میں اپنے ایک سوتر (چچازاد)کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہوکر جتوئی شہر کے بس اسٹینڈ کے سامنے سے گذر رہا تھا بس اسٹینڈ کے سامنے مرغیوں کا ایک کھڈا تھا، کھڈے کے سامنے ایک یاماہا موٹر سائیکل موجود تھا، یوسف گوپانگ نے سوتر کے کندھے پر دباؤ ڈالا، رکیں رکیں سوتر!! سوتر نے بریک لگائی پیچھے بیٹھے یوسف خاں سے پوچھا کہ خیر؟ اس نے کہا، ڈیکھ آں، ایہو موٹر سائیکل اپنڑا نئیں؟ سوتر آکھیا، لالا، جڈوں دا تیڈا موٹر سائیکل کھسے نیں، تیکوں ہر یاماہا، تیڈا لگدے!! نہ یار نہ، اے سیٹ کور تاں ڈیکھ، اے سیف گارڈ ڈیکھ ہفتہ پہلے تاں میں لوایا ہم، یار ایہو اپنڑا موٹر سائیکل اے، دونوں سوتر بحث کرتے کرتے، موٹر سائیکل سے نیچے اترے، مرغیوں کے کھڈے والے کے پاس گئے، پوچھا!! ادا، اے موٹر سائیکل کیندا اے؟ دکاندار نے جواب دیا، سئیں اے ہک گاہک دا اے، او سامہیں نائی دی دکان وچ خط بنڑویندا پے اے دیسی ککڑ اوندا بنڑیا رکھے میکوں آکھیس جو اینکوں بنڑا تے میں ڈاڑھی دا خط بنڑوا تے آوینداں، دونوں کھڑے ہوگئے سوچنے لگے کہ ہم اب کیا کریں اور کیسے اس صورتحال سے نبٹیں ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ پولیس کی وردی میں ایک ادھیڑ عمر بندے کا وہاں سے گذر ہوا، یوسف گوپانگ نے اسے آواز دی، ادا، ہک منٹ ساڈی گالھ سنڑ گھن، وہ رک گیا، قریب آیا تو یوسف گوپانگ نے اس کا بیج پڑھا، اس پر لکھا تھا قومی رضاکار، (یاد رہے ان دنوں رضاکار کی بھی اہمیت تھی) یوسف گوپانگ نے پوچھا، ادا، تیڈی ڈیوٹی ایں تھانڑے تے اے، اس نے کہا جی آ، یار ساڈا ہک مسئلہ اے ایندے وچ ساڈی مددکر، اس نے پوچھا، سئیں حکم کرو؟ یوسف گوپانگ نے حال احوال دیا کہ اس طرح تین راتیں پہلے مجھ سے دو ڈاکوؤں نے موٹر سائیکل چھینا ہے، اب نمبر پلیٹ اتری ہوئی ہے، مجھے شک نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ موٹر سائیکل میرا ہے، ابھی بندہ آئے گا اور ہم اس سے پوچھ گچھ کریں گے، بس تم ساتھ رہنا، رضاکار نے کہا ٹھیک اے سئیں، اتنی ہی دیر میں ایک چھریرے بدن کا نوجوان بوسکی کی قمیض لٹھے کی شلوار پہنے، چہرے بھی خصخصی داڑھی سجائے، مرغیوں کے کھڈے والے کے پاس آیا، ادا، چوکھے پیسے؟ اس نے کہا، سئیں 130روپے، نوجوان نے جیب سے ڈیڑھ سو نکالا اور دکاندار کو دے کر بقایا رقم لیئے بغیر ہی موٹر سائیکل پر چڑھ بیٹھا، رضاکار سمیت تینوں افراد ساتھ ہی ڈُھولے(پلر) کی اوٹ لے کر کھڑے تھے، یوسف گوپانگ سامنے آیا، اور کہا ادا، اے موٹر سائیکل کیندا اے؟ یہ کہنا تھا کہ نوجوان کی حالت غیر ہوگئی کیونکہ چھینتے وقت تو صادق شاہ کا چہرہ منڈاسے میں چھپا ہوا تھا مگر یوسف گوپانگ کا چہرہ تو کھلا ہوا تھا، ابھی دوتین دن ہی تو گذرے تھے موٹر سائیکل چھینے ہوئے اب اتنی جلدی تو صادق شاہ وہ چہرہ نہیں بھول سکتا تھا، اس نے صورتحال بھانپی، اور کہا کہ ادا اے میڈے مسات دا موٹر سائیکل اے، جی، تساں ڈساؤ، مُل گھنڑے؟ دراصل اس نے دیکھ لیا تھا کہ سامنے والا ایک قوی الجثہ شخص ہے اگر اس نے میری کلائی بھی پکڑ لی تو میں چھڑوا ہی نہیں سکوں گا، وہ موقع بناکر وہاں سے بھاگنا چاہتا کیونکہ وہ غیر مسلح تھا اور دوران واردات اس کی ساری طاقت اس کا اسلحہ ہوتی تھی، اب تو وہ غیر مسلح تھا، پھر ایسا ہی ہوا، یوسف گوپانگ موٹر سائیکل کے سیف گارڈ اورسیٹ کور کو غور سے دیکھنے لگ گیا کہ یہ واقعی میرا ہی موٹر سائیکل ہے تو اسی اثناء میں وہ بوسکی کی پوشاک والا نوجوان بھاگ کھڑا ہوا، ادھر یہ تینوں اس صورتحال کے لئے تیار نہ تھے، اس لئے اس کے بھاگنے کا فوری ردعمل دیتے ہوئے ان کو چندسیکنڈ لگ گئے اور وہ چند سیکنڈ کافی تھے فاصلہ بنانے میں، اب جتوئی شہر کا منظر یہ تھا، کہ آگے ایک چھریرے بدن کا نوجوان بوسکی کی خوبصورت قمیض، نیچے لٹھے کی شلوار پاؤں میں مہنگی گرگابی پہنے بھاگتا جا رہا ہے اور پیچھے سے تین بندے شور مچا مچا کر اس کے پیچھے بھاگ رہے، چور، چور چور، آگے بھاگنے والا نوجوان جب دائی والی مسیت چوک میں پہنچا تو سیدھا جانے کی بجائے شہر کی جانب مڑ گیا، اسے احساس نہ ہوا کہ وہ کس جانب جا رہا ہے ”بالیں دی کھیڈ وی اتھائیں تے ڈینڑ دا گھر وی اُتھائیں“ یعنی آگے پولیس اسٹیشن تھا، اسے جب احساس ہوا کہ سامنے تو تھانہ ہے وہ اپنے سیدھے ہاتھ والی گلی مڑ گیا، گلی میں مڑتے ہی وہ سرپٹ بھاگنے لگا، گلی انگلش کے لفظ ایل کی شکل میں تھی یعنی آگے جاکر بند ہوجاتھی (اب اللہ جانے کس شکل میں ہے) نوجوان جونہی آگے کو بڑھا اور اسے گلی بند ہوتی محسوس ہوئی تو وہ ایک گھر کے کھلے ہوئے دروازے میں داخل ہوگیا، پیچھے آنے والے اب تین نہیں تیرہ ہوگئے تھے، گلی میں چور چور کی آوزیں مسلسل اس کا پیچھا کر رہی تھیں اور وہ ایک گھر میں گھسنے کی غلطی کرچکا تھا، گھر میں ایک خاتون کپڑے دھو رہی تھی اس کے ہاتھ میں لکڑی کی ایک تھاپی تھی۔
(یاد رہے کہ ان دنوں گھروں میں کپڑے دھونے والی مشینیں بہت کم ہوتی تھی) خاتون کو احساس ہوا کہ کوئی اچانک میرے گھر میں داخل ہوا ہے، وہ کپڑوں پر تھاپی مارتے مارتے رک گئی، اس نے کان لگائے باہر سے آوازیں آرہی تھیں، چور چور چور، اور گھر میں ایک نوجوان داخل ہوکر اس کو ڈرانے کی کوشش کرنے لگا، او مائی خبردار آواز کڈھیو ناں؟ اگر اس کے ہاتھ میں اسلحہ ہوتا تو یقیناً اس کی دھمکی کارگر تھی، مگر وہ تو خالی ہاتھ تھا، خاتون نے جوں ہی اس کی دھمکی سنی تو جواباً ایک جھٹکے سے کپڑے دھوتی ہوئی کھڑی ہوئی ہاتھ میں تھاپی لئے نوجوان کی طرف لپکی اور کہا، کتے دا پتر آ ہک توں میڈے گھر وڑ آئیں ول اُتوں بھونکدا پئیں جو آواز کڈھیو تاں؟؟ یہ کہتے ہی خاتون جو رب نواز جتوئی نامی ایک محنت کش کی بیوی تھی، تھاپی سے نوجوان کی خدمت شروع کردی اور ساتھ ہی اس نے آوازیں لگائیں باہر والوں کہ جو اتھاں اے اتھاں اے، چور اندر اے، تساں اندر آونجو، خاتون کی آوازیں باہر گئیں تو باہر والا ہجوم چند لمحوں میں اندر آگیا اور اس نوجوان کو گریبان سے پکڑ کر باقاعدہ درگت بنانی شروع کردی، اب منظر یہ ہے کہ ایک ہجوم ہے جو ایک نوجوان کو قابو کرکے خدمت کرتا آرہا ہے کوئی تھپڑ مارتا ہے کوئی گھونسہ، کوئی گالی نکالتا ہے اور کوئی لات مارتا ہے، یہ ہجوم اسے بالکل گلی کے ساتھ ہی موجود پولیس اسٹیشن میں لے آتا ہے اندر سے منشی صاحب نکلتے ہیں ہجوم سے پوچھتے ہیں کیا رولا اے؟ رضاکار صاحب سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں سئیں منشی صاحب میں ڈسینداں! پھر وہ مختصراً حال دیتے ہیں، منشی صاحب رضاکار کو اور مزید دو سپاہیوں کو حکم دیتے ہیں کہ اینکوں لمبا کرو پہلے ہک پنجکا سٹو تے ول ایں کنوں باقی حال احوال گھندوں، دو سپاہی مزید اندر سے نکلے،اب قابو نوجوان مچل رہا ہے مگر بے بس ہے، کر کچھ نہیں سکتا، شاید اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ چپ چاپ اس صورتحال کا سامنا کیا جائے پھر جوں ہی کچھ حالات بہتر ہوں پتلی گلی سے نکلا جائے، جب مزید دو سپاہی باہر آئے ایک کے ہاتھ میں وہی پرانے زمانے کا ”کھلا“ تھا جس پر لکھا ہوا ہوتاتھا چن کتھاں گذاری اے رات وو؟جونہی وہ کھلاحرکت میں آیا نیچے پڑے نوجوان کی آواز نکلی دھاڑ وو(یہ بات صادق شاہ نے بتائی کہ میں نے دھاڑ نکالی اسی لئے تھی تاکہ وہ مجھے بس ایک دو ہی ماریں اگر میں برداشت کرکے دھاڑ نہ نکالتا تو پلسیا سمجھتے کہ یہ کوئی پکا چور ہے اس کو مزید پنجکا نہیں ڈہاکا مارو) سپاہی نے ایک اور کھلا تھوڑے سے وقفے کے بعد زپک دیا ایک اور دھاڑ فضا میں بلند ہوئی، دھاڑ یں سن کربازار سے گذرتے مزید لوگ بھی تھانے کے اندر تماشا دیکھنے آگئے (اُن دنوں یہ سب کچھ کھلے عام اور سرعام ہوتا تھا) اب نیچے پڑے نوجوان کو یقین ہوگیا کہ اب یہ پورے پانچ ہی ماریں گے اس نے تیسرے کھلے پر اپنے شور میں مزیداضافہ کرکے دھاڑ کے ساتھ رونے کی بھی ایکٹنگ شروع کردی منشی نے سپاہیوں کو کہا بس یار بس متاں چندرے کوں کجھ تھی ونجے سپاہی ایک جانب ہٹ گئے اور تھانے کے اندر آجانے والے ہجوم کو باہر نکلنے کا حکم دیا، باقی تو سارے نگل گئے مگر یوسف گوپانگ اور اس کا سوتر موجود رہے، جی منشی صاحب ساڈے کیتے کیا حکم اے؟ منشی صاحب نے رضاکار سے کہا کہ تم جاکر وہ موٹر سائیکل لے آؤ جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا ہے اور گوپانگوں کو کہا تم لوگ اب جاؤ اور کل دس بجے آناایس ایچ او صاحب کو اپنے موٹر سائیکل کے کاغذات بھی دکھانا، موٹر سائیکل تمہارا ہوا تو پھر پرچہ درج کرکے تمہاری کاروائی کریں گے، دونوں گوپانگ خوشی خوشی چلے گئے کہ چلو ہمارا موٹر سائیکل تو مل گیا اور چھیننے والا بھی، ان کے جانے کے بعد منشی صاحب نیچے بیٹھے نیم بے ہوش نوجوان سے پوچھنے لگے ہاں ووئے تیڈا ناں کیا اے؟ اس نے ابتر حالت کی بہترین اداکاری کرتے ہوئے بڑے ہی آہستہ آہستہ کہا صدیق خاں، کون تھیندیں؟ جواب پھر آہستگی سے ملا، غزلانی، کتھ بیٹھیں موضع قیصرغزلانی وچ۔
اسی دوران منشی صاحب کو ایک اور سائل نے اپنی طرف متوجہ کیا کہ یہ تو اب آپ کے پاس ہے کہاں جائے گا آپ میری بات بھی سن لیں منشی صاحب کو کسی سیاسی شخصیت کا فون اس بندے کے لئے آیا تھا اس لئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوکر نیچے پڑے نیم بے ہوش نوجوان کو چھوڑ کر اپنی کرسی میز کی جانب بڑھ گئے۔
اسی اثناء میں تھانہ جتوئی میں تعینات ایک پرانا حوالدار غلام نبی بلوچ جو ریٹائرڈ ہونے کے قریب تھا وہ تھانے میں داخل ہوتا ہے اس کی نگاہ نیم برہنہ نوجوان کی جانب اٹھتی ہے وہ اچٹتی سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھتا ہے کہ اچانک اس کے بوڑھے دماغ کی بتی میں ایک جھماکا سا ہوتا ہے وہ رک جاتا ہے پھر پیچھے کو آتا ہے نیچے پڑے نوجوان کو غور سے دیکھتا ہے پھر خود بھی نیچے بیٹھ جاتا ہے ایک بار پھر بہت غور سے اس کے چہرے کی جانب دیکھتا ہے اور جھٹکے سے کھڑا ہوجاتا ہے، تھوڑا ساپیچھے جاتا ہے تھانے کے کھلے گیٹ کو بڑی آہستگی سے بندکرتا ہے ڈیوٹی پر موجود سنتری صاحب خود چوکی کے باہر کھڑے ریڑھی سے گنڈیریاں کھا رہے ہوتے ہیں گیٹ بند ہوتے دیکھ کر حوالدار کو کہتے ہیں خیر اے گیٹ کیوں پیا بند کریندیں؟ حوالدار نے الٹا سوال داغ دیا،گیٹ تے تیڈی ڈیوٹی اے؟ ہا میڈی ڈیوٹی اے سنتری جواب دیتا ہے،ول اندر آونج تے گیٹ نہ کھولیں، سنتری صاحب حیران ہوکر حوالدار کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ خیر اے سئیں اج تاں ول لگدے تھانے دا چارج جناب کوں مل گے؟ حوالدار اس کے تمسخر اڑانے کی پرواہ کئے بغیر اندر منشی کی جانب جاتا ہے اسے کرسی سے اٹھا کر ایک سائیڈ پر لے جاکر نیم بے ہوش نیم برہنہ نوجوان کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا ہے کہ اے کون اے؟ منشی جواب دیتا ہے کہ یہ کہتا ہے کہ میرا نام صدیق غزلانی ہے اور میں موضع قیصرغزلانی کا رہائشی ہوں، کچھ لوگ اس کو پکڑ کر تھانے دے گئے ہیں شاید اس پر موٹر سائیکل چرانے یا چھیننے کا الزام ہے، بوڑھے حوالدار نے نہائت سنسنی خیز انداز میں کہا اچھا تیکوں کائنی پتہ جو اے کون اے تے ہنڑ اے ڈسا جو اپنڑے ایس ایچ او صاحب کتھ ان؟ منشی صاحب نے جوابدیا او مکان تے ہِن، ول میڈی گالھ غور نال سنڑ، اے سامہیں پیا ہویا بندہ صدیق غزلانی کائنی اے صادق شاہ اے !!! کیا کیا کون کون اے؟ اے صادق اے صادق شاہ، او جیڑھا خونی تے ڈکیت اے؟ اب منشی صاحب کی زبان میں لکنت تھی اور وہ کانپ رہا تھا، نہ کر یار، نہ اینجھی مذاق وی بھلا کریندی اے؟ منشی کی حالت غیر تھی، حوالدا ر نے اسے تسلی دی حوصلہ بڑھایا اور کہا جلدی کر اپنڑے ایس ایچ او صاحب کوں اطلاع ڈے، منشی نے ہکلاتے ہوئے کہا میڈی نہ ہمت پئی تھیندی اے نہ ای میڈی جرات اے، تئیں سنجانڑے میں تیکوں کال ملا ڈیندا،آپ ای اطلاع ڈے،منشی کمرے میں آیا تھانہ میں موجود ٹیلی فون سیٹ کا کریڈل اٹھا کر ٹِک ٹِک کیا دوسری کوشش کے بعد دوسری جانب سے بھی کریڈل اٹھا لیا گیا آگے سے ایس ایچ او تھانہ قیوم نواز قیصرانی نے فون اٹینڈ کیا تو منشی نے کہا کہ حوالدار غلام نبی بلوچ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے،ایس ایچ او صاحب نے کہا، کراو، غلام نبی بلوچ نے نہایت رازدارانہ انداز میں کہا کہ سئیں قیصرانی صاحب اپنڑے تھانڑے تے صادق شاہ بدھیج آئے، اب آپ خود سوچیں کہ آگے سے ایس ایچ او صاحب کو بھی یہ سن کرکرنٹ لگ گیا، کیا کیا کیا، کیا آکھی، کون صادق شاہ، اوہو جیڑھا ڈکیت تے خونی اے؟ تیڈا دماغ تاں خراب نئیں، ایس ایچ او نے حوالدار کو کہا، حوالدار نے کہا کہ سئیں میڈا دماغ ٹھیک اے اللہ دا ناں منو تساں افسران کوں وی اطلاع ڈیو تے آپ ای جلدی جلدی تھانڑے پجو میں اونکوں چنگی طرح جانڑدا تے سنجاڑدا ہاں تاں ای تہاکوں گالھ پیا کرینداں، ایس ایچ او کو اپنے حوالدار کی بات پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھاادھر صادق شاہ کو کچھ کچھ اندازہ ہورہاتھا کہ اچانک گیٹ بندہوجانا، پھر بوڑھے حوالدار کا میرے پاس آنا غور سے دیکھنا واپس جانا کچھ نہ کچھ تو ایسا ہورہا ہے جو میرے لئے ٹھیک نہیں ہے اس کو کسی نے نہیں اٹھایا مگر جونہی وہ خود اٹھ بیٹھا بوڑھا حوالدار فوراً اس کے سامنے پہنچ کر استفسار بھری نظروں سے دیکھ کر بولا جی کیا گالھ اے؟ کئی گالھ نئیں ہنڑ تساں میکوں کھلے تاں مار گھدن سلوار پاواں؟ ہا پا چا، وہ نیم برہنہ نوجوان جونہی ساتھ پڑی شلوار پہننے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا بوڑھا حوالدار فوراً اس کے سامنے اور گیٹ کے درمیان دیوار بن گیا جب اس نے شلوار پہن لی تو حوالدار نے منشی سے کہا کہ منشی صاحب ہتھکڑی تاں چا آؤ، وہ تھانے کے مال خانے سے ایک پرانی سی ہتھکڑی ڈھونڈلایا مزے کی بات کہ ہتھکڑی میں چابی گھوم ہی نہیں رہی تھی، منشی کے کمرے سے اس کے استعمال میں آنے والا سرسوں کا تیل ہتھکڑی میں ڈالا گیا تب
جاکر چابی گھومی، جب وہ نوجوان کو ہتھکڑی لگانے لگا تو اس نے کہا سئیں خیر اے؟ ایویں چھوٹے موٹے چور نال اتلی سختی نئیں کریندی، میں اپنڑے کجھ سکیں کوں آہداں او تہاڈی ڈھیر ساری خذمت کر ڈیسن میکوں ونجنڑ ڈیو، بوڑھا حوالداراسے ہتھکڑی میں جکڑ بھی رہا تھا اور اس کی بات غور سے سن بھی رہا تھا کہنے لگا اچھا! تیڈے سکے کتھ بیٹھن؟ سئیں ڈسایا تاں ہم جو موضع قیصرغزلانی وچ بیٹھوں میں قوم دا غزلانی تھینداں،ٹھیک اے کئی گالھ نئیں ایس ایچ او صاحب امدے پن توں اپنڑا معاملہ انہاں کوں ڈسا تے ول بے شک گھر ونج پیا یہ بات کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ اسے پہچان لیا گیا ہے اس نوجوان کو اندر لے جاکر منشی کے سامنے رکھی بنچ پر بٹھایا گیا چائے شائے پوچھی گئی، کیا اب اس کا دل کررہا ہوگا چائے شائے پینے کا؟
ویسے تو ایس ایچ او صاحب عموماً اپنے مکان سے تھانے پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگاتے تھے مگر اس وقت شاید تین یا چار منٹ بمشکل گذرے ہوں گے کہ ایس ایچ او قیوم نواز قیصرانی اپنی شرٹ کے بٹن لگاتے ہانپتے کانپتے تھانے پہنچ گئے حوالدار تھانے کے صحن میں ہی ان کا انتظار کررہا تھا ایس ایچ او نے استفسار طلب نگاہوں سے حوالدار کو دیکھا اس نے اندر کی جانب اشارہ کیا وہ اندر پہنچا اس نے منشی کے سامنے والی بنچ پر ایک سوٹٹڈبوٹڈ نوجوان کو ہتھکڑی میں بندھا دیکھا، پھر دیکھا اور غصے سے غلام نبی بلوچ کی جانب دیکھ کر سوال داغ دیا اے ہے صادق شاہ؟ جی آسئیں! یار تیڈا دماغ واقعی پٹیج گے تیکوں سال پہلے ای ریٹائرڈ کر ڈیونڑا چاہیدا اے، جب دونوں کے درمیان یہ تکرار جاری تھی تو (صادق شاہ بتاتا ہے کہ پہلے تو میرا دل اچھل کرحلق سے باہر آنے لگا کہ جب حوالدار نے میرے سامنے کہا کہ جی سئیں ایہو اے صادق شاہ پھر ان کی بحث پر دل مطمعن سا ہونے لگا اللہ کرے کوئی اور نہ آئے اور ایس ایچ او مجھے بس ایک بار کوئی بھی قیمت لے کر چھوڑ دے بس ایک بار، ایس ایچ او قیوم نواز قیصرانی تھانے آتے ہوئے اپنے ڈی ایس پی علی پور اور ایس ایس پی مظفرگڑھ کو یہ اطلاع دے کرآیا تھا، اب صورت حال یہ ہے کہ حوالدار ایس ایچ او کو کہتا ہے کہ جب میں تھانہ لودھراں میں تھا تب اس کا اغوا کے ایک مقدمے میں چالان ہوا پھر اس کو باقاعدہ سزا ہوئی تین سال کی میں اس کو اچھی طرح پہچانتا ہوں مگر ایس ایچ او اس کے حلئے اور شباہت کی وجہ سے یقین کرنے سے ہچکچا رہاتھا کیونکہ اس سے قبل اس کے مشاہدے میں ہمیشہ ایسے جرائم پیشہ عناصر لہیم شہیم لمبے تڑنگے بڑی بڑی مونچھوں والے خوفناک شکلوں والے ہی آئے تھے اب وہ ایک چھریرے سے بدن بہترین پوشاک یعنی بوسکی کی قمیض لٹھے کی شلوا ر خوبصورت چمکیلی سی گرگابی خط بنی خصخصی سی داڑھی والے کو اتنا خطرناک ظالم اور سفاک ڈکیت مانتے ہوئے ہچکچا رہا تھا کہ باہر سے گاڑیوں کا شور اٹھا ایس ایچ او اور عملہ باہر کو لپکا تو باہر ایس ایس پی مظفرگڑھ(نام یاد نہیں آرہا) ڈی ایس پی علی پور عبدالرحمن بھٹی ایک بڑی پولیس کی نفری کے ہمراہ قیدیوں والی وین سمیت پہنچ چکے تھے، چوکی میں گاڑیاں لانے کی جگہ کم تھی صرف ایس ایس پی مظفرگڑھ کی گاڑی اندر آئی اور پھر ایس ایس پی ایس ایچ او کی کرسی پر جابیٹھا ڈی ایس پی اس کی کرسی کے ساتھ والی کرسی پر ایس ایچ او قیوم نواز قیصرانی افسران کو سلیوٹ مارنے کے بعد جب ہتھکڑی میں جکڑے نوجوان کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر افسران کے سامنے کھڑا کیا تو پہلے تو دونوں افسران کے چہرے پر بھی وہی تاثرات ابھرے جو اس سے پہلے ایس ایچ او ظاہر کرچکا تھا پھر ایس ایس پی نے اپنے پی اے کو کہا کہ اس تھانیدار کو اندر بلاؤ، ایک اے ایس آئی جس کی عمر اس وقت پچاس پچپن سال ہوگی وہ اندر آیا اور اسے ایس ایس پی نے اشارہ کیا تھانیدار نے ہتھکڑی میں جکڑے نوجوان کی جانب غور سے دیکھا جونہی تھانیدار کی نگاہ اس طرف اٹھی اس کو سکتہ ہی طاری ہوگیا وہ چند سیکنڈ اسے دیکھتا رہا پھر ایس پی کی جانب نگاہ اٹھا کر اثبات میں سر ہلایا، یعنی جی ہاں یہی ہے سفاک ڈکیت اجرتی قاتل صادق شاہ!!! ایس ایس پی ایک جھٹکے سے اٹھا باہر کھڑے سپاہیوں کو اشارہ کیا، وہ اندر کمرے میں آئے صادق شاہ کو لگی ہتھکڑی کھولی اور پھر اسے ساتھ لائی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں تک پہنائیں اور پھر اسے قیدیوں کی وین میں بٹھایا، وین کی چھت پر اور اس کے پیچھے بھی مسلح پولیس اہلکار بٹھائے قیدیوں والی وین کے پیچھے ایک اور وین لگائی اور یہ قافلہ تھانہ صدر علی پور جا رکا، جہاں پر تھانہ صدر کے عملے کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنا سارا سامان اٹھا کر باہر نکل جائیں تھانے کا عملہ اپنے ضروری کاغذات، فرنیچر اور دیگر اشیاء اٹھانے لگا جتنی دیر تک وہ اپنا سامان اٹھاتے رہے پولیس نے صادق شاہ کو قیدیوں والی وین میں ہی بٹھائے رکھا، ایک گھنٹے بعد عملے نے ایس پی کو رپورٹ کی ہم مکمل طور پر باہر آچکے ہیں اور پھر پولیس وین اندر لائی گئی ہتھکڑیوں بیڑیوں میں جکڑے صادق شاہ کو اتارا گیا اسے تھانے کی حوالات میں بند کرکے پولیس کی جو ایکسٹرا نفری پولیس لائن مظفرگڑھ سے منگوائی گئی تھی اس کے ذریعے تھانے کو چاروں جانب سے کارڈن آف کرکے تھانے کی چھتوں پر بھی مسلح پولیس اہلکار بٹھا دئے گئے شام تک یہ سارا عمل مکمل ہوا تو ملتان اور مظفرگڑھ سے آئی ہوئی ایک مشترکہ انوسٹی گیشن ٹیم کی چار کرسیاں بڑے سارے کمرے میں لگادی گئیں، ٹیم کے ارکان بیٹھ چکے تو بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے صادق شاہ کوحوالات سے نکال کر ان کے سامنے لایا گیا، سوالات ابھی شروع ہی ہوئے تھے کہ صادق شاہ نے کہا
بئی سب خیر اے، میں کنوں جو کچھ پچھسو بغیرچون چرا کیتے تہاکوں ڈسیساں نہ تہاکوں ہک کھلا مارنڑ دی لوڑھ اے نہ ای میں کھلے کھا تے ڈساونڑ چاہساں، پر پہلے میکوں روٹی کھواؤ میں سویل دا بھکا آں!
ٹیم ارکان نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا پھر ایک آفیسر نے کہا یہ ٹھیک کہتا ہے اسے پہلے روٹی کھلاؤ، صادق شاہ نے ایک ہاتھ کی ہتھکڑی کھولنے کو کہا، ہتھکڑی کھول دی گئی، اس نے کھانا کھایا پانی پیا ڈکار مارا، شکرالحمداللہ بھی کہا اور پھرگویا ہوا جی، پُچھو کیا کیا پچھنڑے؟ اور جب پوچھے اور بغیر پوچھے ہی صادق شاہ نے انکشافات شروع کئے توانوسٹی گیشن ٹیم کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی گئیں کہ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔

قسط نمبر ایک نیچے لنک میں 

90کی دہائی میں رحیم یار خان ، ملتان، مظفر گڑھ کی جیلوں میں جنم لینے والے دہشت ناک ڈکیت گروہ کی ہولناک کہانی ، ان کا سرغنہ صادق شاہ کون تھا

ویب ڈیسک

ویب ڈیسک

Next Post
امریکی صدر جوبائیڈن خطرناک بیماری میں مبتلا ، تمام مصروفیات ترک کر دیں 

امریکی صدر جوبائیڈن خطرناک بیماری میں مبتلا ، تمام مصروفیات ترک کر دیں 

گرمی کے ستائے عوام کیلئے خوشخبری ، کہاں گرج چمک کے ساتھ برکھا برسے گی اور کہاں موسم خشک رہے گا ، محکمہ موسمیات نے بتا دیا

آج ملک میں کہاں کہاں موسلا دھار بارشوں کا امکان ہے ؟ محکمہ موسمیات نے بتا دیا

موجودہ حکومت کے بس 18ماہ باقی ؟ معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ کی شہباز حکومت اور عمران خان بارے بڑی پیش گوئی

موجودہ حکومت کے بس 18ماہ باقی ؟ معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ کی شہباز حکومت اور عمران خان بارے بڑی پیش گوئی

سپریم کورٹ کے 4 ججوں کو بھی دھمکی آمیز خط ملنے کا انکشاف

مخصوص نشستوں پر حلف لینے والے ممبران کی حکمت عملی ، مبینہ طور پر سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ رٹ پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ

صدر منتخب ہوا تو سعودی عرب کی ہمیشہ حفاظت کروں گا: ڈونلڈ ٹرمپ

صدر منتخب ہوا تو سعودی عرب کی ہمیشہ حفاظت کروں گا: ڈونلڈ ٹرمپ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In