دی جروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ایک حیران کن اور اہم دریافت کی ہے، جہاں تقریباً 4 ہزار 5 سو سال پرانی چار گدھیوں کی قربانی کے شواہد ملے ہیں۔
یہ گدھیاں قدیم شہر جاتھ (Gath) کے ایک کانسی دور (Bronze Age) کے گھر کے نیچے دفن ملی ہیں۔ جاتھ موجودہ تل الصافی (Tell es-Safi) کے قریب واقع ہے، جو ہیبرون سے تقریباً 20 کلومیٹر شمال مغرب میں ہے۔
یہ انکشاف حال ہی میں سائنسی جریدے PLOS One میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے، جس کے مطابق یہ گدھیاں غالباً قدیم مصر (Ancient Egypt) سے لائی گئی تھیں اور انہیں زرعی محنت اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
ماہرین کے مطابق ان جانوروں کی قربانی غالباً دولت اور سماجی مرتبے کا اظہار تھی۔تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ قربان کی گئی تمام گدھیاں مادہ تھیں، جوان اور بہترین جسمانی حالت میں تھیں۔ ان کے پاؤں بندھے ہوئے تھے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں باقاعدہ ایک رسوماتی انداز میں دفن کیا گیا تھا۔
یہ دریافت قدیم مشرق وسطیٰ کی معیشت، رسومات اور مصر و کنعان کے درمیان تعلقات کے بارے میں نئی معلومات فراہم کرتی ہے۔
گدھیوں کی باقیات کی یہ دریافت قدیم کنعانی تہذیب کے رسوماتی طرزِ عمل پر نئی روشنی ڈالتی ہے، جو اس خطے میں ابتدائی کانسی دور سوم (Early Bronze Age III، تقریباً 2900 سے 2550 قبل مسیح) کے دوران آباد تھے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ان گدھیوں کا مصری (Egyptian) نسل سے ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے مالک تاجر یا سوداگر تھے جن کے مصر سے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ ان گدھیوں کی قربانی نہ صرف مذہبی یا رسوماتی عمل کا حصہ ہو سکتی ہے بلکہ یہ دولت، سماجی حیثیت، اور بین الاقوامی روابط کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔
یہ دریافت اس دور کے کنعانیوں کی اقتصادی سرگرمیوں، مذہبی عقائد، اور ان کے ہمسایہ تہذیبوں خصوصاً قدیم مصر کے ساتھ تعلقات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔
قدیم جاتھ (Gath) میں گدھوں کی باقیات مسلسل دریافت ہوتی رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس مقام پر جانوروں کی رسوماتی قربانی ایک عام رواج تھا۔
2010 میں ماہرین کو ایک ایسا گدھا ملا تھا جس کا سر مکمل طور پر کاٹ کر انتہائی احتیاط سے اس کے پیٹ پر رکھا گیا تھا، اور وہ مخالف سمت کی طرف رخ کیے ہوئے تھا۔ اس غیر معمولی دریافت کے بعد محققین نے علاقے میں مزید گدھوں کی تلاش جاری رکھی۔2016 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کے مطابق، جب اس گدھے کے دانتوں کے اینامل (enamel) اور کیمیائی تجزیے کے ذریعے اس کے آئسوٹوپس (isotopes) کا تجزیہ کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ وہ گدھا دراصل وادیِ نیل (Nile Valley) یعنی مصر سے آیا تھا۔
طاقت اور دولت کی علامت: گدھے کی قربانی
حالیہ تحقیق میں ماہرین نے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ گدھے کی قربانی، اس دور میں، محض مذہبی رسومات کا حصہ نہیں بلکہ طاقت، دولت اور سماجی مرتبے کی علامت بھی تھی۔ چونکہ قدیم دور میں گدھے نہایت اہم نقل و حمل اور زرعی محنت کے لیے استعمال ہوتے تھے—جیسا کہ ہل چلانا، وزنی سامان اٹھانا اور تجارتی اشیاء کی ترسیل—اس لیے ان کی قربانی غیر معمولی سمجھی جاتی تھی۔
تحقیق کے مطابق قربان کیے گئے تمام گدھے مادہ تھے، جو اس دور میں خاص اہمیت رکھتے تھے، اور غالباً ان کے مالکان کے لیے ان کا بدل مہیا کرنا ممکن تھا، جو ان کی معاشی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام گدھیوں کی کھوپڑیاں مشرق کی جانب رخ کیے دفن کی گئی تھیں، اور ان کے اگلے اور پچھلے پاؤں ایک ساتھ باندھے گئے تھے—جو قربانی کے کسی خاص مذہبی یا ثقافتی طرز عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قدیم کنعانی معاشرہ نہ صرف مصری تہذیب سے وابستہ تھا بلکہ مذہبی رسومات اور سماجی نظام میں بھی اعلیٰ سطح پر پیچیدگی اور علامتی اظہار موجود تھا۔
چار قربان کیے گئے گدھوں کی دریافت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ یہ جانور قدیم دنیا میں نہ صرف معیشت اور تجارت کے لیے بلکہ مذہبی رسومات میں بھی نہایت اہم کردار ادا کرتے تھے۔
گرینڈ ویلی اسٹیٹ یونیورسٹی، مشی گن کی ماہرِ بشریات اور ماہرِ ماحولیاتی آثارِ قدیمہ الزبتھ آرنلڈ کا کہنا ہے کہ :”یہ دریافت قدیم دنیا میں گدھوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، جو محض اقتصادی یا تجارتی پہلو سے نہیں بلکہ مذہبی رسومات میں بھی مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔”
محققین نے گدھوں کی اصل کا پتہ چلانے کے لیے آئسوٹوپک تجزیہ (Isotopic Analysis) کا استعمال کیا، جس سے معلوم ہوا کہ یہ گدھے وادیِ نیل (Nile Valley) میں زندگی گزار چکے تھے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ جانور غالباً مصر سے جاتھ لائے گئے تھے، اور ممکن ہے کہ یہ کسی تجارتی یا اقتصادی تبادلے کا حصہ ہوں۔
قدیم دنیا میں انسان اور جانوروں کا رشتہ
اس مطالعے کے نتائج ہمیں قدیم زمانے کے جانوروں کی زندگی اور ان کے انسانی معاشروں میں کردار کی ایک دلچسپ جھلک دکھاتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ وہ گدھوں کی باقیات پر تحقیق جاری رکھیں گے تاکہ اس پیچیدہ تعلق کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے جو قدیم انسانوں اور جانوروں کے درمیان موجود تھا۔یہ دریافت نہ صرف آثارِ قدیمہ کے شعبے میں ایک اہم سنگِ میل ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح جانور مذہبی، ثقافتی اور معاشی زندگی میں گہرے طور پر جُڑے ہوئے تھے ۔