تحریر: رانا اشرف
پاکستان میں اس وقت کرکٹ کے کروڑوں مداح ہیں اور اب کرکٹ اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ریکارڈ بننے اور ٹوٹنے میں سالوں کی بجائے دن لگتے ہیں اس طرح کرکٹر بھی آتے اور جاتے رہتے ہیں بلکہ اب تو کئی کھلاڑیوں کے نام بھی پتہ نہیں ہوتے ۔
پاکستان کی کرکٹ میں کئی کرکٹر بہت حسین و جمیل تھے جن کی ہزاروں لڑکیاں پرستار تھیں اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گراؤنڈ میں آتی تھی ۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے خوبصورت کرکٹر نیلی آنکھوں والا فاسٹ باؤلر فضل محمود تھا جس کے حسن کے چرچے پوری دنیا میں تھے۔1954 میں دورہ انگلینڈ کے دوران ملکہ الزبتھ نے فضل محمود کو کہا کہ پاکستانی نہیں لگتے آپ کی آنکھیں نیلی کیوں ہیں ؟
پاکستان نے عظیم باؤلر فضل محمود کی شاندار باؤلنگ کی وجہ سے 12 وکٹ سے ٹیسٹ میچ جیتا تو برطانیہ کے اخبارات کی ہیڈ لائین کچھ یوں لگی Enlarged Fazzaled Out اور اوول کا ہیرو قرار دیا گورا چٹا نیلی آنکھوں والا فصل لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گیا،ایڈورٹائزنگ کمپنیناں فضل کے پیچھے لگ گئی اور پاکستان کے پہلے کرکٹر ماڈل بن گئے۔
1952 میں پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے کا درجہ ملا تو دیلی میں بھارت کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کھلاڑی واپس گروانڈ سے واپس رہے تھے تو ایک لڑکی نے آواز لگائی کہ اچھا کھیلے لیکن بھارت سے جیت نہیں سکتے، وہ لڑکی بھارت کے وزیراعظم کی بیٹی اور بعد میں خود وزیراعظم بھی رہی، نام تھا اندرا گاندھی ۔ فضل نے اس لڑکی اندرا گاندھی کے طعنے کا جواب لکھنؤ ٹیسٹ میں 12 وکٹیں لے کر دے دیا۔
بالی وڈ کی مشہور اداکارہ ایوا گارڈنر فلم بھوانی کی شوٹنگ کے لاہور آئی تو ایک کلب میں فضل محمود کو دیکھا تو دیوانی ہو گئی اور اپنے ساتھ رقص کی فرمائش کر دی۔
1955 میں وزڈن نے فضل کو سال کے 5 بہترین کھلاڑیوں میں شامل کیا تو یہ اعزاز پانے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی بن گئے۔
1969 میں کراچی ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے گیری سوبر کو آؤٹ کر کے سو وکٹیں لینے والے باؤلر بن گئے، 34 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 139 وکٹیں حاصل کیں۔
فضل محمود 1927 کو لاہور میں پیدا ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس میں ڈگری لی اور 1943 میں کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ 10 ٹیسٹ میچز میں کپتان کے عہدے پر رہے ۔
فصل محمود پولیس میں بھرتی ہوئے اور ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے بعد میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت منہاج القرآن میں شامل ہو گئے اور عوامی تحریک کی طرف سے الیکشن بھی لڑا۔
عمر کے آخری حصے میں کچھ خاندانی مسائل پیدا ہوئے اور اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام میں عشا سے فجر تک داتا دربار گزارتے اور محلے کی مسجد میں اذان بھی دیتے رہے۔
نیلی آنکھوں والے پاکستان کے حسیں وجمیل کرکٹر 2005 میں رحلت فرما گئے اور لاہور کے علاقے گڑھی شاہو قبرستان میں سپرد خاک ہوئے