تحریر : سمیرا سلیم
مون سون کی غیرمعمولی بارشوں اور بھارت کی جانب سے چھوڑے گئے پانی نے سیلاب کی صورت اختیار کر کے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. تباہی کی داستانیں جا بجا دکھائی دے رہی ہیں۔بھارتی ڈیموں سے چھوڑے گئے پانی کے باعث دریائے راوی، چناب اور ستلج میں سیلابی کیفیت شدت اختیار کرچکی ہے۔
خیبرپختونخوا میں تباہ کن سیلاب کے بعد اب قہر پنجاب کے کئی اضلاع پر نازل ہو چکا۔ سیالکوٹ، نارروال اور شکرگڑھ میں پانی اسکولوں اور سرکاری عمارتوں میں داخل ہو چکا ہے۔ دریائے ستلج میں بھی اونچے درجےکا سیلاب ہے جس سے بہاولپور کی 3 تحصیلوں خیر پورٹا میوالی، بہاولپور اور احمد پور شرقیہ کے بیٹ کے علاقوں میں پانی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ فصلیں، گھر اور اسکول زیر آب آچکے ہیں۔
بھارت مزید پانی چھوڑ رہا ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی کا اندیشہ ہے۔ ضلع بہاولنگر میں بھی دریائے ستلج پر بھوکاں پتن اور بابا فرید پل پر پانی کی سطح بلند ہے۔ تحصیل منچن آباد، بہاولنگر اور چشتیاں میں متعدد دیہات اور ہزاروں ایکڑ فصلیں زیر آب آگئی ہیں، گھروں اور فصلوں کی تباہی نے غریب عوام اور کسان کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 1950 سے 2010 تک پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے 8887 لوگ اپنی جانوں سے گئے تھے۔معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے ہوا۔ بونیر کے دل دہلا دینے والے قیامت خیز مناظر ابھی آنکھوں سے اوجھل ہوئے نہیں تھے کہ ایک نئی مصیبت آن پہنچی ہے۔
پنجاب میں خوفناک صورتحال ہے کیونکہ ستلج اور چناب کے بعد دریائے روای بھی بیپھر گیا ہے۔ دریائے راوی کے بیڈ پر قائم ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پانی داخل ہو رہا ہے۔ آبی گذرگاہوں پر کمرشل سرگرمیاں، ہاؤسنگ سوسائٹیز اور موٹر ویز بنا کر لاہور شہر کو بچانا بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ جس طرح لاہور کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اب سیلابی پانی کہاں جائے گا اور کیا کچھ بہا لے جائے گا یہ تصور ہی دل دہلا دینے والا ہے۔
لاہور میں دریائے راوی کے دونوں اطراف تعیمر کیے جانے والا پہلا ماڈل شہر آباد ہونے سے پہلے ہی سیلاب کی نذر ہو گیا۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی(روڈا) نے تو سیلاب سے نمٹنے کی بھی حکمت عملی تیار کر رکھی تھی۔ دیکھتے ہیں کہ حکومت پنجاب اور روڈا اس سیلاب سے کس طرح نمٹتا ہے۔ بھارت نے 1988 میں دریائے راوی میں پانچ لاکھ کیوسک تک پانی چھوڑا تھا۔
اس وقت تو دریائے روای کے اردگرد بڑی بڑی سڑکیں تھیں اور نہ ہی ہاؤسنگ سوسائٹیز۔ سو لاہور شہر کو بچا لیا گیا تھا لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ 38 سال کے طویل عرصے کے بعد دریائے راوی میں اتنا پانی آیا ہے جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ بھارت نے راوی میں 2 لاکھ کیوسک کا ریلا چھوڑا جس سے شاہدرہ اور موٹر وے ٹو کے نشیبی علاقوں پر سیلاب کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو
ملک میں سیلابوں کا آنا جانا لگا رہے گا۔ ہمارا سب سے بڑا مسلہ ہی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لئے اتنی زیادہ تعداد میں ڈیم نہیں ہیں۔ ڈیم اور نہریں سیاست کی نظر ہو چکی ہے۔ سیلاب سے مرنا اور معیشت کی تباہی قبول ہے لیکن یہ قوم ڈیم بنانے پر متفق ہوتی ہے اور نہ ہی نہریں ۔ ہمارے پاس بڑے چھوٹے ڈیمز ملا کر کل 164 ڈیمز ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔
ڈیمز جہاں سیلابی صورتحال سے محفوظ رکھتے ہیں وہیں خشک سالی اور پانی کی قلت سے بھی بچاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثر کو زائل کرنے میں ڈیمز اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔پہلے ہی 44 فیصد سے زائد ملکی آبادی کو پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں۔ اب وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ چاروں وزراء اعلیٰ کی حمایت سے ڈیم بنانے کی حکمت عملی بنا لی ہے گویا ڈیم نہ ہوئے کوئی مٹی کا کھلونا ہوگیا جسے اب منٹوں میں بنا لیا جائے گا۔ کیسے کیسے لوگ ہم پر مسلط کر دیئے گئے ہیں۔
قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا بھی کوئی ان سے سیکھے۔ سنجیدہ موضوع کا بھی مذاق بنا دیا صاحب اقتدار لوگوں نے۔پاکستان کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ، کینیڈا، جاپان اور چین سمیت مغربی یورپ کے ممالک کا موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے زہریلے مواد اور گیسوں کے اخراج میں حصہ 50 فیصد ہے۔ یہ ممالک دنیا کی آبادی کا صرف 12 فیصد ہیں جبکہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے لیکن خمیازہ کہیں زیادہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے کہیں گلیشیئرز تو کہیں بادل پھٹ رہے ہیں۔شدید بارشیں سب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے لیکن ان سے نمٹنے کیلئے حکومتی سطح پر کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ جب بھی ایسا سانحہ پیش آیا، حکمران سسے کیش کرانے کیلئے جھولی پھیلا کر دنیا بھر کے دوروں پر نکل کھڑے ہوئے۔متاثرین کے نام پر امداد اکٹھی کی اور اسے اپنے اللے تللوں پر خرچ کر دیا۔
اس بار اک نئی روش دیکھنے کو ملی ہے کہ اپنی نااہلی اور کچھ نہ کرنے کا ملبہ دوسروں پر ڈال دو۔اس بار سارا الزام بھارت پر ڈال دیا ہے کہ اس نے آبی جارحیت کرتے ہوئے دریاؤں میں پانی چھوڑ کر پورے پنجاب کو بڑے پیمانے پر تباہی سے دو چار کردیا ہے۔اس بات میں ایک حد تک تو حقیقت ہے لیکن سارا الزام اس کے سر ڈال دینا محض حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
اس بربادی میں ہم اس سے کہیں زیادہ قصوروار ہیں۔ جن دنوں ہم اربوں ڈالرز قرض لیکر موٹرویز بنا رہے تھے، بھارت نے اپنی توجہ ایکسپورٹ بیس اکانومی کو فروغ دینے اور ڈیمز بنانے پر مرکوز کی۔ چین، امریکا، بھارت، جاپان اور برازیل ڈیم بنانے میں سب سے آگے ہیں۔سوچیں دنیا میں کل 57 ہزار ڈیمز ہیں جن میں سے 24 ہزار چین اور 5 ہزار 1 سو بھارت کے پاس ہیں جبکہ وہ مزید ڈیمز بنانے پر کام کر رہے ہیں۔
ہماری ترجیحات اتنی فرسودہ ہیں کہ سوچ کر دم گھٹنے لگتا ہے۔ نہریں بنانے کے معاملہ ہو یا ڈیمز، ان کے خلاف احتجاجی تحریک مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم بھی تنازعات کے باعث نہ بن سکا۔آج اگر ہمارے پاس دریاؤں پر ڈیمز بنے ہوتے تو سیلابی پانی کا زیادہ تر حصہ ذخیرہ کیا جا سکتا تھا۔
ایک تو سیلاب کی شدت سے بچ جاتے دوسرا سارا سال زرعی اراضی کو سیراب کرنے کے لئے وافر مقدار میں پانی دستیاب رہتا ۔ مگر عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے۔ اس قوم کے مقدر میں ہر آفت کو بھگتنا ہی لکھا ہے۔ 2010 کی فلیش فلڈنگ کے بعد تو ہر صورت ڈیمز بنانے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے تھی۔
ہم نے بھارت کی فضائی اور زمینی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے بھرپور تیاری کی مگر آبی جارحیت کو مکمل نظرانداز کردیا۔ بھارت ڈیم بناتا رہا اور ہم قرض کی موٹرویز ، نیلی پیلی ٹیکسی اسکیمز، میٹرو بسوں، بلٹ ٹرینوں کو ترقی کا پیمانہ سمجھتے رہے۔
بھارت اس وقت 172 دنوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم ہیں کہ محض 30 دنوں کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اربوں ڈالرز کا پانی سمندر کی نذر کر دیا جاتا ہے اور ملال تک نہیں۔ آپ تسلی رکھیں اس تباہی کے بعد بھی حکومت کی ترجیحات میں ڈیمز بنانا نہیں ہو گا۔ آپ اور ہم ہر سال سیلاب کے ہاتھوں اجڑتے رہیں گے۔
ہماری ساری توجہ زرعی زمین اور جنگلات کو کاٹ کر کنکریٹ کے جنگل کھڑے کرنے پر ہے۔ عوام کو بھی ماحولیات کا احساس نہیں۔ کبھی درختوں کے قتل عام پر احتجاج ہوتا نہیں دیکھا۔ایک ایسے موقع پر جب پنجاب کو 1988 کے سیلاب کے بعد پہلی بار اتنی سنگین سیلابی صورتحال کا سامنا ہے پنجاب کی وزیر اعلیٰ صوبے کے چیف سیکریٹری کے ہمراہ طویل غیرملکی دوروں پر تھیں۔اب واپسی ہوئی ہے توکشتیوں پر بیٹھ کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے وہی روایتی دورے شروع ہوگئے ہیں۔چند عدد فوٹوز، درد سے عاری گھسے پٹے جملوں پر مشتمل وڈیوز سے عوام کے دکھوں کا مداوا کیا جائے گا۔
عوام کے ٹیکسوں کے کروڑوں روپے لگا کر ان طویل دوروں سے حاصل کیا ہوا؟ عوام کے منہ پر پیکا ایکٹ کا قفل لگا ہے، لہٰذا کون سوال کی صورت میں یہ بھاری پتھر اٹھائے؟