تحریر : سمیرا سلیم
پاکستان میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کا معاملہ ایک سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ بچے گھر، اسکول،مدارس اور گلی محلوں کے بعد اب آن لائن بھی محفوظ نہیں رہے۔ والدین کے لئے بچوں کو تحفظ دینا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
معاشرہ اتنی اخلاقی تنزلی کا شکار ہو چکا ہے کہ ایسی جگہیں جہاں انسان سوچتا ہے کہ بچے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور ان کی اچھی نشوونما کی جا رہی ہے، وہیں پر ہی زیادہ تر بچوں کو ذہنی ، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پہلے صرف مدارس کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا اور اس کی توجیہ یہ دی جاتی تھی کہ کیونکہ بچے رات دن وہیں بسر کرتے اور استاد یا منتظم کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اس لیئے باآسانی نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس دلیل میں کسی حد تک تو وزن ہے لیکن ایسے دلسوز واقعات تو اب ہر جگہ رونما ہونے لگے ہیں۔ سو خرابی مدرسہ یا اسکول میں نہیں بلکہ اس مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والے بعض انسان نما بھیڑیوں میں ہے۔
ابن آدم کے بھیس میں موجود یہ درندے معاشرے کے ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں ۔انھیں جب کبھی موقع ملتا ہے تو پھول کی مانند بچوں کی زندگیوں کو مسل دیتے ہیں۔ جنسی تشدد کا سامنا کرنے والے بچوں کو زندگی بھر نفسیاتی عوارض اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان سب واقعات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مجرموں کی اکثریت سزا سے بچ جاتی ہے۔ وجہ کبھی پولیس کی ناقص تفتیش بنتی ہے تو کہیں نظام قانون میں موجود سقم آڑے آجاتا ہے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں ہر 4 منٹ میں ایک بچہ تشدد کی وجہ سے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔
دنیا میں اس وقت 90 ملین کے قریب ایسے بچے ہیں جو جنسی تشدد سے گزرے ہیں۔ اوسطاً سالانہ 20 سال سے کم عمر کے ایک لاکھ 30 ہزار بچوں کی زندگی پرتشدد واقعات کے ذریعے ختم ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی ایک غیرسرکاری تنظیم ایس ایس ڈی او نے پاکستان میں سال 2024 کے دوران ہونے والے بچوں پر تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات پر رپورٹ جاری کی ہے۔
یہ سب وہ واقعات ہیں جو متاثرین نے پولیس میں رپورٹ کرائے ہیں اور انھیں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پولیس سے حاصل کیا گیا ہے۔ ان میں یقینا بہت سے واقعات کا اندراج ہی نہیں ہوا ہوگا کیونکہ ایسے خوفناک واقعات میں ہمارا سماج جس نوعیت کا ردعمل دیتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں نے پولیس سے رجوع ہی نہ کیا ہو۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ برس 7608 بچوں پر تشدد و جنسی زہادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے یعنی ملک بھر میں یومیہ 21 بچے تشدد کا نشانہ بنے۔ اس میں زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ تشدد کے یہ واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود زیادہ تر کیٹیگریز میں سزا کی شرح 1 فیصد سے بھی کم رہی۔
کوئی ملک ہو یا معاشرہ وہ عدل و انصاف سے نمو پاتا ہے۔ آزاد عدالت اور جج اس کی بنیادی اساس ہوتی ہے ۔ ہمارا نظام انصاف پہلے ہی قابل فخر حالت میں نہیں تھا رہی سہی کسر 26ویں ترمیم نے پوری کردی ہے۔عدالتوں کو حکومت اور پارلیمینٹیرینز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب وہ طے کریں گے کون سا جج اعلی عدالتوں میں بھرتی ہوگا اور کسے چیف جسٹس کے منصب پر فائز کرنا ہے۔جب حالات یہ رخ اختیار کرلیں تو پھر ملک میں استحکام کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہی کہلائی جا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں پاکستان بھر میں جنسی زیادتی کے 2954، اغوا کے 2437،جسمانی تشدد کے 683، بچوں کی سوداگری کے 586، چائلڈ لیبر کے 895 اور کم عمری کی شادی کے 53 واقعات رپورٹ ہوئے۔
سزا و جزا کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنسی زیادتی کے کیسز میں قومی سطح پر سزا کی شرح صرف 1 فیصد رہی، اغوا کے کیسز میں سزا کی شرح 0.2 فیصد جبکہ کم عمری کی شادی کے مقدمات میں کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی۔ پنجاب میں سب سے زیادہ کل 6083 کیسز رپورٹ ہوئے۔
یہاں جسمانی تشدد کے 455 مقدمات میں صرف سات مجرموں کو سزا ملی، جنسی زیادتی کے 2ہزار506 مقدمات میں صرف 28 ، اغوا کے 2ہزار 189مقدمات میں صرف چار مجرموں کو سزا دی گئی۔خیبر پختونخوا کی حکومت جو انصاف کے نعرے پر عوام سے ووٹ لیکر آئی ہے یہاں 1102 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں جسمانی تشدد کے 208 اور جنسی زیادتی کے 366 مقدمات شامل تھے۔ حیران کن طور پر ان مقدمات میں کسی کو سزا نہیں ملی۔
پی ٹی آئی کا دعوی تھا کہ ہم نے صوبے میں پولیس کے نظام کو ٹھیک کر دیا ہے لیکن یہ اعداد و شمار کچھ اور کہانی سنا ریے ہیں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بچوں کے تحفظ کیلئے وفاق اور صوبائی حکومتیں ناکام دکھائی دے رہی ہیں ۔ ہمارا تفتیشی و جوڈیشل سسٹم اس قابل نہیں رہا کہ سنگین جرائم پر سخت اور بروقت سزائیں دے کر ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرسکے۔
ملک کےدور دراز علاقوں کا کیا رونا رویا جائے اب تو وفاقی دارالحکومت میں بھی بچے محفوظ نہیں رہے۔ وزارت داخلہ نے سینٹ میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں سال 2021 سے جون 2025 تک درج ہونے والے 567 جنسی استحصال کے مقدمات میں سے 200 بچوں سے متعلق ہیں۔ جنسی استحصال کے ان 200 بچوں کے کیسز میں سے 93 لڑکے جب کہ 108 لڑکیاں شامل ہیں۔ ان واقعات میں 222 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے صرف 12 کو سزا ہوئی۔
جزا اور سزا کا جب یہ عالم ہوگا تو مجرمانہ رجحان رکھنے والوں کو مزید شہہ تو ملے گی۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا نظام اتنا فرسودہ ہو چکا ہے اس کی اصلاح کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے کو اخلاقی طور پر مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ جب تک سنگین جرائم پر کڑی اور بروقت سزائیں نہیں دی جائیں گی، بچے یونہی جنسی تشدد کا سامنا کرتے رہیں گے اور ہر نئے واقعے پر آپ اور ہم بس ماتم ہی کرتے رہیں گے۔
حالات جس سمت جا رہے ہیں یہاں والدین کو ہی مزید چوکس رہتے ہوئے اپنے بچوں کی حفاظت کرنا ہوگی۔ اخلاقی تنزلی کے شکار ہمارے معاشرے میں والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کے تحفظ کیلئے کسی پر بھروسہ نہ کریں خاص طور پر بچوں کو گھریلو ملازمین جیسا کہ خانساماں اور ڈرائیور وغیرہ کے ساتھ اکیلا مت چھوڑیں۔ بچوں کو کسی رشتے دار ، جان پہچان رکھنے والے ، کسی اجنبی یا محلے داروں کے حوالے مت کریں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ 11 سے 15 سال کے بچے سب سے زیادہ اس خطرے سے دو چار ہیں اور اسی عمر کے بچوں کو والدین سمجھدار مانتے ہوئے یا مجبوری میں قریبی مارکیٹ میں اکیلے کچھ سودا سلف لینے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ جس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ بہت سارے بچے تو خوف کے مارے والدین کو بھی نہیں بتاتے کہ ان پر کیا بیتی۔ لہٰذا خود ہی ہوش کے ناخن لیں ۔ ارباب اختیار سے امیدیں وابستہ نہ کریں کہ ان کی ترجیحات میں عوام کی کوئی جگہ نہیں۔ والدین کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ زمانہ وہ نہیں رہا جب والدین رعب و دبدبے سے اولاد سے ڈیل کرتے تھے اور بچہ والدین سے بات کرتے ہوئے ڈرتا تھا ۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ رویے بچوں اور والدین کے مابین ذہنی دوریاں پیدا کرتے ہیں اور بچے والدین کے بجائے دوستوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے سو خود کو بھی بدلیں ۔ اپنے بچوں کے دوست بنیں تاکہ وہ بغیر کسی جھجک کے آپ سے اپنی خوشی، غم، ڈر اور خوف بانٹ سکیں۔ اکثر والدین بچوں کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے جو ایک منفی رویہ ہے۔ بچے من کے سچے، یہ کہاوت ایسے ہی نہیں بنی۔ زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ بچے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے۔ بچوں کو سنیں اور ان کو تحفظ کا احساس دیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔