رپورٹ :رافعہ زاہد
واشنگٹن / نئی دہلی: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز ایک فرمان پر دستخط کیے جس کے تحت H-1B ویزا کی سالانہ فیس 1 لاکھ امریکی ڈالر مقرر کی گئی ہے، جو پہلے تقریباً 2ہزار ڈالر تھی۔
صدر ٹرمپ کے مطابق یہ اقدام امریکی کارکنان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کو “حقیقت میں انتہائی ہنر مند افراد” کی خدمات حاصل کرنے کا راستہ فراہم کرے گا۔
وائٹ ہاؤس کے اسٹاف سیکرٹری ول شارف نے کہا کہ H1-B پروگرام سب سے زیادہ “استعمال ہونے والا ویزا” نظام ہے اور اس میں فراڈ، منی لانڈرنگ اور بعض کمپنیوں کی منظم جرائم کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا، “ہمیں بہترین محنت کش چاہئیں، اور یہ فیس اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ آنے والے افراد واقعی انتہائی ہنر مند ہوں اور امریکی کارکنان کی جگہ نہ لیں۔
اس اقدام کے تحت کمپنیز ہر سال 1 لاکھ ڈالر ادا کریں گی، اور اس سے بھارتی ٹیکنالوجی کارکنان، انجینئرز اور محققین سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ طویل عرصے سے H-1B ویزا کے بڑے حصہ دار ہیں۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر ‘The Gold Card’ بھی جاری کیا، جس کے تحت غیر ملکی افراد جو امریکہ کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں، وہ ایک لاکھ ڈالر (یا کارپوریشن کی اسپانسرشپ میں دو لاکھ ڈالر) ادا کر کے تیز ویزا اور گرین کارڈ کے لیے راستہ حاصل کر سکیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکی ٹیکس میں کمی اور قرض کی ادائیگی ممکن ہوگی اور کمپنیز اعلیٰ ہنر مند افراد کو برقرار رکھ سکیں گی۔
بھارت کا ردعمل:بھارت نے ہفتہ کے روز کہا کہ وہ امریکی H-1B ویزا پروگرام پر متوقع پابندیوں کے مکمل اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔ وزارت خارجہ (MEA) نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے متاثرہ خاندانوں کے لیے انسانی نوعیت کے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔
وزارت کا کہنا ہے، “حکومت نے امریکی H-1B ویزا پروگرام پر متوقع پابندیوں سے متعلق رپورٹس دیکھی ہیں اور اس کے مکمل اثرات متعلقہ تمام فریقین، بشمول بھارتی صنعت، کے ذریعے مطالعہ کیے جا رہے ہیں۔
”MEA نے مزید کہا کہ بھارتی اور امریکی صنعتیں دونوں اس بات میں دلچسپی رکھتی ہیں کہ جدت اور تخلیقی صلاحیتیں برقرار رہیں اور متوقع اقدامات پر مشاورت کریں۔
ماہرانہ ہنر کی نقل و حرکت اور تبادلے نے امریکی اور بھارتی ٹیکنالوجی کی ترقی، جدت، اقتصادی نمو اور مقابلہ بازی میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔” وزارت نے امید ظاہر کی کہ امریکی حکام اس سے پیدا ہونے والے ممکنہ انسانی اثرات کو مناسب طریقے سے حل کریں گے۔