بینگلور کے وکٹوریہ اسپتال میں تعینات 32 سالہ جنرل سرجن مہیندر ریڈی کو بخوبی معلوم تھا کہ انسانی جسم مختلف دواؤں پر کیسے ردعمل ظاہر کرتا ہے — مگر اس نے یہ علم کسی کی جان بچانے کے لیے نہیں بلکہ جان لینے کے لیے استعمال کیا۔
ایک 28 سالہ ڈرماٹولوجسٹ (ماہر امراض جلد) کی اچانک موت کو جب فطری قرار دے کر بند کر دیا گیا تھا، تو چھ ماہ بعد پولیس نے انکشاف کیا کہ اس کی موت دراصل قتل تھی — اور اس کے شوہر مہیندر ریڈی نے سرجن جیسی درستگی کے ساتھ اس جرم کی منصوبہ بندی کی تھی۔
مہیندر کو 14 اکتوبر کو اپنی بیوی ڈاکٹر کرُتھِکا ریڈی کو بے ہوشی کی دوا (اینستھیزیا) کی زیادہ مقدار دے کر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ دونوں کی شادی 26 مئی 2024 کو ہوئی تھی — یعنی شادی کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔
وائٹ فیلڈ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس ایم. پرشورام کا کہنا تھا کہ مہیندر نے اپنے پیشہ ورانہ علم اور بیوی کی بیماریوں سے متعلق مکمل واقفیت کو استعمال کرتے ہوئے یہ منصوبہ انتہائی سوچ سمجھ کر تیار کیا۔
“مہیندر نے اپنی بیوی کے قتل کی باریک بینی سے منصوبہ بندی کی۔ اسے اس کی طبی کمزوریاں معلوم تھیں، اور اس نے اپنے علم کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا۔”
پولیس کے مطابق، 21 اپریل کو مہیندر نے اپنی بیوی کو گھر پر گھبراہٹ (گیسٹرک ڈسکمفرٹ) کا بہانہ بنا کر انٹراوینس (IV) دوا دی۔ اگلے دن وہ اسے اس کے والدین کے گھر ماراتھاہلی لے گیا، یہ کہہ کر کہ اسے آرام کی ضرورت ہے، اور رات کو واپس آ کر اسے ایک اور IV ڈوز دے دی۔
23 اپریل کو کرتھکا نے IV کے مقام پر درد کی شکایت کی۔ مہیندر نے مبینہ طور پر واٹس ایپ پر اسے مشورہ دیا کہ وہ اسے نہ نکالے، اور یقین دلایا کہ وہ رات کو آ کر ایک اور دوا دے گا۔رات تقریباً ساڑھے 9 بجے بجے وہ اس کے کمرے میں گیا اور انجیکشن لگایا۔
اگلی صبح 24 اپریل کو کرتھکا بے ہوش پائی گئی۔ حیرت انگیز طور پر، خود ڈاکٹر ہونے کے باوجود مہیندر نے CPR دینے کی کوشش بھی نہیں کی۔اسے فوراً اسپتال لے جایا گیا، مگر ڈاکٹروں نے پہنچتے ہی اسے مردہ قرار دے دیا۔
پوسٹ مارٹم اور فرانزک سائنس لیبارٹری (FSL) کی رپورٹ میں اس کے جسم میں بے ہوشی کی دوا کے اجزا پائے گئے، جس سے ظاہر ہوا کہ موت فطری نہیں تھی۔اس کے بعد پولیس نے ابتدائی غیر فطری موت کی رپورٹ (UDR) کو قتل کے مقدمے میں تبدیل کر دیا اور کرتھکا کے والد منی ریڈی کی ایف آئی آر پر مہیندر کو گرفتار کیا۔
میڈیکل معمہ سے قتل تک
یہ معاملہ اُس وقت نیا رخ اختیار کر گیا جب کرتھکا کے والد کے ایم منی ریڈی نے شکایت درج کروائی۔ان کا کہنا تھا “ہماری بیٹی سمجھتی تھی کہ اس کی شادی عزت اور محبت پر قائم ہے، مگر جس علم سے زندگیوں کو بچایا جاتا ہے، اسی علم کو اس کی جان لینے کے لیے استعمال کیا گیا۔”
پولیس کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ مہیندر اپنی بیوی کی گیسٹرک اور میٹابولک بیماریوں کے بارے میں جان کر ناراض تھا، جو بقولِ اس کے، شادی سے قبل اس کے گھر والوں نے چھپائی تھیں۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس انکشاف کے بعد مہیندر کے دل میں کینے اور نفرت نے جنم لیا، جو بالآخر سوچی سمجھی زہریلی منصوبہ بندی میں بدل گئی۔
کرتھکا کی موت کے بعد بھی مہیندر نے خود کو پُر سکون اور نارمل ظاہر کیا۔پولیس کے مطابق، جب اس سے تفتیش کی گئی تو وہ بالکل غیر جذباتی رہا اور بار بار یہی کہتا رہا کہ اس کی بیوی کی موت قدرتی تھی۔
FSL رپورٹ آنے کے بعد کیس کو قتل میں تبدیل کر دیا گیا اور مہیندر کو بھارتیہ نیا سنہیتا (BNS) کی دفعہ 103 (قتل) کے تحت گرفتار کیا گیا۔
بینگلور کے پولیس کمشنر سیمانت کمار سنگھ نے تحقیقاتی ٹیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک ایسے قتل کو بے نقاب کیا جو طبی سانحے کے روپ میں چھپایا گیا تھا۔
ڈاکٹر کرتھکا اپنی اسکن کلینک ‘اسکن اینڈ اسکیلپل’ کھولنے کی تیاری کر رہی تھیں، جو 4 مئی کو افتتاح ہونا تھا — مگر وہ اس سے کچھ دن پہلے ہی جان کی بازی ہار گئیں۔وہ ایک قابل اور ہمدرد ڈرماٹولوجسٹ سمجھی جاتی تھیں۔
انہوں نے MBBS وائڈیہی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے،MD نووَدیا میڈیکل کالج، رائچور سے،اور DNB (ڈرمٹولوجی، وینریالوجی اینڈ لپروسی) NBEMS سے حاصل کیا تھا۔
وکٹوریہ اسپتال کے ان کے ساتھی ڈاکٹروں نے کہا:“وہ ہمیشہ خواتین کو خود مختار بنانے کی بات کرتی تھیں۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ جس شخص پر وہ سب سے زیادہ بھروسہ کرتی تھیں، اسی نے ان کے اعتماد کو توڑ دیا۔”