ضلع خیبر کے شلوبر قمبر خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلی سہیل آفریدی کو عمران خان نے اوپننگ بلے باز قرار دیا ہے۔ عمران خان نے نیا کھلاڑی ایک ایسے وقت میں میدان میں اتارا ہے جب خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کے خلاف ایک اور فوجی آپریشن جاری ہے۔
پاکستان میں تو اکثر اوپننگ بلے باز صفر پر ہی آؤٹ ہو جاتے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ سہیل آفریدی صاحب اپنی اننگز آخری گیند تک کھیلنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔
اگر ان کے سیاسی کیریئر پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک دبنگ اور جوشیلے نوجوان ہیں، جنہوں نے گراس روٹ لیول سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور بہت جلد پارٹی میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ تاہم سہیل آفریدی کتنی اہم شخصیت ہیں اس کا اندازہ شہباز سرکار کی چیخ و پکار اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے معلوم ہوا کہ عمران خان کا ترپ کا پتہ "سہیل آفریدی” کس شخصیت کا مالک ہے۔
ان کی پہلی کامیابی ہی یہی ہے کہ حکومت اور طاقتور حلقوں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود وہ وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے۔ بڑے بڑوں کی پیشگوئیاں اور کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں۔
خیبرپختونخوا میں علی امین گنڈاپور کی حکومت کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ 19 ماہ تک قائم رہنے والی گنڈاپور کی حکومت صوبہ میں بدامنی اور دہشتگردی پر قابو پانے میں ناکام رہی، بلکہ دہشتگردی نے اس دور میں دوبارہ سر اٹھایا ۔ سیکیورٹی اور گورننس کی صورتحال تسلی بخش نہ تھی۔ گنڈاپور عمران خان کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کی عوام کی توقعات پر بھی پورا نہیں اتر سکے۔
گنڈاپور کی حکومت کے پہلے ہی سال سے کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ جس پر گزشتہ برس اگست میں عمران خان نے صوبائی حکومت کے وزراء کے لئے سخت پیغام بھیجا کہ انہیں اپنے محکموں میں ہونے والی بدعنوانی اور بیڈ گورننس پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔
موجودہ گورنر فیصل کریم کنڈی جو علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور کرنے میں جان بوجھ کر دیر کر رہے تھے ، نے گنڈاپور پر صوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ رواں برس 30 ارب روپے کی خودبرد کا کوہستان کرپشن اسکینڈل بھی منظر عام پر آیا۔
دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے بھی کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ خان صاحب کی رہائی کے لئے ہونے والے احتجاج میں بھی گنڈاپور کے کردار پر سوالات اٹھتے رہے ۔خاص طور پر نومبر 2024 کے احتجاج میں جب کارکنان اپنی جانوں پر کھیل رہے تھے تو گنڈاپور کارکنوں کو چھوڑ کر کے پی ہاؤس پہنچ گئے۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس میں گنڈاپور کو پارٹی اور ورکرز کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔ گذشتہ دنوں علیمہ خان کے بارے جو کچھ علی امین نے کہا اس کے بعد وہ پارٹی کا حصہ ہیں یہی بہت ہے۔
سہیل آفریدی کی بطور وزیر اعلیٰ شاندار انٹری اور نوجوان کارکنان کے جوش و خروش سے ایسا تاثر پیدا ہوا ہے ، جیسے کے پی میں ایک نئی صبح طلوع ہوئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ گورنر ہاوس میں ان کی تقریب حلف برداری میں 4 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی جو ایک ریکارڈ ہے۔ان کا عوامی سٹائل اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لئے گنڈاپور والا راستہ اختیار نہیں کریں گے ۔
سہیل آفریدی نے اپنی پہلی دھواں دھار تقریر میں عمران خان سے عشق کرنے کا جو دعویٰ کیا ہے اسے وفا کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اس کا شاید انہیں ابھی اندازہ نہ ہو، مگر موجودہ نظام میں عمران خان کی رہائی اتنی
آسان نہیں۔
عمران خان کی رہائی بارے کیا فارمولا بنایا گیا ہے، اس پراسرار پلان کو بقول ان کے وہ ابھی پبلک نہیں کرنا چاہتے۔ عمران خان نے جیل میں بیٹھ کر ثابت کر دیا ہے کہ خیبرپختونخوا پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔ سہیل آفریدی نے بھی نئی کابینہ تشکیل دینے سمیت تمام اہم فیصلے عمران خان کی مرضی اور ہدایات سے مشروط کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
جمعرات کو سہیل آفریدی عمران خان سے ملنے اڈیالہ جیل آئے مگر جیل کے دروازے نہ کھل سکے ۔ اس موقع پر انھوں نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ شہباز شریف نے فون پر مبارکباد دی تھی ۔اس دوران انھوں نے وزیر اعظم سے عمران خان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جس پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پوچھ کر بتاتا ہوں۔ ہم نے تو یہی سنا اور دیکھا تھا کہ ایک جمہوری نظام حکومت میں وزیراعظم مکمل بااختیار ہوتا ہے اور صرف عوام کو جوابدہ ہے مگر پھر خواجہ آصف کے الفاظ ذہن میں ابھرے کہ ہائبرڈ نظام حکومت ہے۔اس نظام کی فیوض و برکات نے کم از کم اتنا تو عیاں کر دیا کہ وزیراعظم ہر جگہ اختیار نہیں رکھتا اور وہ بھی کہیں نہ کہیں جوابدہ ہے۔
نظام نے نئے وزیر اعلی کو پیغام دے دیا کہ عمران خان کی رہائی تو دور کی بات محض ملاقات کرنا بھی ان کیلئے ایک بڑا چیلنج رہے گی۔ حکومت نے سہیل آفریدی کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ دے کر سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھاوا دینے کی کوشش کی ہے۔
طاقتور لوگ شاید جلسے جلوس اور مزاحمت ہی چاہتے ہیں۔ ملاقات کی اجازت نہ دینا بظاہر اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اب سہیل آفریدی پر منحصر ہے کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
تاہم ابھی تک تو خیبرپختونخوا کے نوجوان وزیر اعلیٰ نے ملاقات میں ناکامی کے بعد سخت ردعمل دینے گریز کیا ہے اور قانون ، آئین اور صبر کی بات کر رہے ہیں۔ ان تین دنوں میں انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کی طرح آخری گیند تک کھیلیں گے اور ہار نہیں مانیں گے۔