سمیرا سلیم کا بلاگ
مملکت خداد میں آجکل دستور میں ترامیم کا موسم گرم ہے۔ سینیٹ سے ستائیسویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے بعد 28ویں ترمیم کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی تھی کہ رانا ثنا اللہ نے بڑے دبنگ انداز سے اٹھائیسویں ترمیم لائے جانے کی تصدیق کر دی۔ حکومت اور مقتدرہ کی ساری کوششیں آئین پاکستان کو ازسرنو لکھنے پر مرکوز ہیں۔ ہمارے وزیراعظم شہباز شریف اقتدار کیلئے سویلین بالادستی کے ویسے بھی قائل نہیں تھے سو سویلین بالادستی کا رہا سہا باب بھی ختم کر ڈالا۔ ستائیسویں ترمیم کے ذریعے ” اختیارات، تاحیات مراعات اوراستشنی” کا مشن تو مکمل ہو چکا،سو آئین پاکستان میں اب جتنی مرضی ترامیم کر لیں ان کی حیثیت ثانوی رہے گی۔
معیشت ریورس گیئر میں ہے, دہشتگردی شہر اقتدار تک پہنچ آئی ہے مگر حکمران اتحاد کی تمام تر توجہ آئین سے کھلواڑ کرنے میں ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے سیکیورٹی اور بگڑتی ہوئی ملکی معیشت ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق سال 2025 کے ابتدائی نو ماہ کے دوران 53 ہزار 838 نئی کمپنیوں نے دبئی چیمبر آف کامرس کی رکنیت اختیار کی، حیران کن طور پر ان سرمایہ کاروں میں پاکستانی کمپنیاں دوسرے نمبر پر رہیں، جن کی نئی رجسٹریشنز کی تعداد 4 ہزار 281 رپورٹ ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دبئی سرمایہ کاروں کے لئے ایک پر کشش مقام ہے۔ ان کی سرمایہ کار دوست حکومتی پالیساں، ٹیکس کا نظام اور اسٹریٹجک گلوبل پوزیشن، امن، سیاسی و معاشی استحکام غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے کافی ہیں۔ دوسری طرف قدرتی وسائل سے مالامال پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بیرونی سرمایہ کاری میں 34 فیصد کی بڑی کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کا اگر گزشتہ سال ستمبر کے مہینے سے موازنہ کریں تو سرمایہ کاری میں کمی کی یہ شرح 54 فیصد بنتی ہے۔ چند روز قبل قطر کے الثانی گروپ جس نے 1,320 میگاواٹ پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ میں اب تک 1 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی، اپنے 49 فیصد ملکیتی حصص فروخت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اربوں ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری لانے کے حکومتی دعووں کا شیرازہ بری طرح بکھر رہا ہے۔ حکومت دوست ممالک کے پرانے سرمایہ کاروں کو پاکستان چھوڑنے سے روکنے میں بھی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ پاکستانی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں رکھتیں تو غیر ملکی کمپنیاں کیوں کر کریں گی؟
حکومت نے خلیجی ممالک سے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے جن غیر ملکی کنسلٹنٹس کو ہائر کیا تھا اب ان کے قیمتی مشوروں کی قیمت ادا کرنے کا وقت آچکا ہے۔ ان کنسلٹنٹس کو 5.4 ارب سے زائد کی ادائیگیاں کرنی ہیں. تاہم حکومت نے ان کنسلٹنٹس کو ادائیگیوں کے لئے بجٹ کی منظوری عارضی طور پر موخر کر دی ہے۔ حکومت نے گزشتہ برس اپریل میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ کیونکہ وطن عزیز کی بیوروکریسی میں مہارت کا فقدان ہے اور وہ اس قابل نہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری لانے کے منصوبے تیار کر سکے لہذا 5.4 ارب روپے کی فیس پر فزیبلٹی سٹڈیز تیار کرنے کے لئے تین سال کے لیے ان کنسلٹنٹس کو ہائر کیا جائے۔ اب ان کنسلٹنٹس کا کہنا ہے کہ ہم تو بس آپ کو سرمایہ کاری کے حصول کے لئے تکنیکی مشورے دے سکتے ہیں۔
اندازہ لگائیں کہ ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے حکومت کبھی غیر ملکی لابنگ فرمز تو کبھی غیر ملکی فرموں سے مشورے لینے پر پھونک رہی ہے۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قربت حاصل کرنے کے لئے ٹرمپ سے منسلک لابنگ فرمز کو کروڑوں کی ادائیگیاں کی گئیں۔ دی گارڈین اخبار نے انکشاف کیا تھا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ سے منسلک لابنگ فرمز کو لاکھوں ڈالر کی ادائیگیاں کیں۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل تھا۔ موجودہ حکومت نے ٹرمپ سے منسلک لابیسٹ فرمز کے ساتھ 4 لاکھ پچاس ہزار ڈالر ماہانہ کے دو معاہدے کئے تھے تاکہ ٹرمپ کے قریبی حلقہ احباب میں جو افراد ہیں ان کے ذریعے ٹرمپ تک رسائی حاصل کی جائے۔
چند سال قبل کی بات ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور جمہوریت پسند ہونے کے دعویدار بلاول بھٹو کراچی سے اسلام آباد اور ن لیگ سے محترمہ مریم نواز نے سیلیکڈڈ راج اور مہنگائی مکاؤ مارچ کیا تھا۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جو معیشت ، سیاست اور ریاست بچانے نکلے تھے آج انہیں کو ہی اپنے بچاؤ کے لئے استثنی کی ضرورت پڑ گئی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ ہائبرڈ پلس نظام میں نہ ملک جمہوری رہا ہے نہ اسلامی۔ جمہوریت کو جس طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے ملکر دفن کیا ہے تاریخ اس کی گواہ رہے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی تاحیات استثنی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لینے تھے مگر جیل میں بیٹھے عمران خاں کا خوف آڑے آگیا۔ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ن لیگ کو بتایا کہ اگر ایسا کیا گیا تو عمران خان کو بھی رہا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ اس کا حل بھی تھا کہ 27 ویں ترمیم کے مسودے میں لکھ دیا جاتا کہ یہ موجودہ وزیراعظم اور آئندہ کے وزرائے اعظم پر لاگو ہوگا تاہم بہتر یہی سمجھا گیا کہ وزیراعظم کے عہدے کو اس سے نکال دیا جائے۔افسوس! خان صاحب کی رہائی کے خوف سے ہمارے وزیراعظم اس نعمت سے محروم رہے۔ خیر جس طرح ملک میں ترمیم ترمیم کھیلی جارہی ہے کوئی شک نہیں کہ آنے والے کسی وقت شہباز شریف کو بھی اس سے مستفید کرنے کا راستہ نکال لیا جائے گا۔





