سمیرا سلیم کا بلاگ
گذشتہ کئی سالوں سے چینی اور گندم کے بحران نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ کماد کرشنگ سیزن کا بیشتر علاقوں میں آغاز ہو چکا، مگر اس کے باوجود چینی کی قیمتیں انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ سارا سال چینی کی قیمتوں میں اتارا چڑھاؤ کا کھیل جاری رہتا ہے۔ ہر پاکستانی سالانہ تقریباً 28 کلو گرام چینی استعمال کرتا ہے۔ملک میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سال 2011 میں مریضوں کی تعداد 63 لاکھ تھی جو 2021 میں بڑھ کر 3 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جبکہ مزید 10 لاکھ افراد ابتدائی درجے کی زیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ ہر تیسرا بالغ فرد اس مرض میں مبتلا ہے۔ اس وقت پاکستان میں روزانہ تقریباً 1100 اموات ذیابطیس اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب ہو رہی ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2050 تک ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد 7 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
قیمتیں جتنی بھی بڑھ جائیں ہم چینی کا استعمال ترک کرنے پر تیار نہیں۔چینی ملک کے بیشتر شہروں میں 190 سے 200 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔ منافع خور اور شوگر مافیا سرگرم ہیں۔ پنجاب میں شوگر ملز مالکان بھی کرشنگ میں تاخیر چاہتے ہیں تاکہ منافع کا سلسلہ چلتا رہے۔ ادھر لاہور ہائیکورٹ نے بھی ان کو دو دن کا سٹے دے دیا۔ حکومت کی کنفیوز پالیسیاں اور بدنیتی پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے منافع خوروں کی چاندی ہوئی ہوئی ہے۔
شوگر سے متعلق مختلف نوعیت کے تنازعات جنم لینا ہر سال کی کہانی ہے۔ چینی کی امپورٹ ایکسپورٹ کا دھندہ بھی پرانا ہے۔ پہلے یہ چینی وافر مقدار میں بتا کر ایکسپورٹ کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں اور پھر چند ہی دنوں میں ملک میں قلت کا بتا کر چینی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے نا صرف بے جا منافع کماتے ہیں بلکہ سبسڈی بھی لیتے ہیں۔ گذشتہ 6 برسوں میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومتوں نے شوگر ملز مالکان کو سبسڈی کی مد میں 25ارب روپے جھونک دئیے۔
رواں برس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ جہاں ایک طرف 67 شوگر ملوں نے 112 ارب روپے کی چینی برآمد کی تو وہیں مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے سے شوگر ملوں نے 300 ارب روپے کا منافع کمایا۔ جہانگیر ترین کی ملکیت میں 3 شوگر ملز ہیں۔ جے ڈی ڈبلیو گروپ نے 73,090 میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کی، جس کی مالیت 11.1 ارب روپے تھی۔ اس کے بعد ٹنڈلیانوالہ شوگر ملز ہے جس نے 5.98ارب روپے مالیت کی 41.412میٹرک ٹن چینی باہر بھیجی۔ اس کے بعد تیسرے نمبر پر حمزہ شوگر ملز نے 32,486میٹرک ٹن چینی جس کی مالیت 5.03 ارب روپے تھی ایکسپورٹ کی۔ دیگر بڑی برآمد کنندگان میں تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمیٹڈ، جے کے شوگر ملز، مدینہ شوگر ملز، رمضان شوگر ملز، انڈس شوگر ملز ، حبیب شوگر ملز اور دیگر شامل ہیں۔ جس ملک میں شوگر ملز کی ایک بڑی تعداد طاقتور سیاسی افراد کی ملکیت ہو اور فیصلہ سازی کا اختیار بھی ان کے ہاتھ میں ہو تو وہ عوام کے فائدے کے لئے پالیسی کیونکر بنائیں گے؟
اب 77 سال بعد چینی کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اخباری اطلاعات تو یہ ہیں کہ نئی پالیسی کے تحت نئی شوگر ملز لگانے پر پابندی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ شوگر انڈسٹری کی ڈی ریگولیشن پالیسی کے اثرات کیا نکلتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی پالیسی کرشنگ سیزن کے آغاز سے قبل ہی آ جانی چاہیے تھی۔
ایک زرعی ملک کی تباہی کی داستان کسی اور نے نہیں بلکہ اس ملک کی اشرافیہ نے خود لکھی ہے۔1990 میں جس ملک کی ایکسپورٹ جی ڈی پی کا 16 فیصد تھی، اب کم ہو کر 10 فیصد رہ گئی۔ ویتنام ، بنگلہ دیش اور بھارت سب ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان سالانہ 60 ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کا نقصان کر رہا ہے۔
دوسری طرف رانا ثنا اللہ نے یہ اعتراف تو کیا ہے کہ مہنگائی بہت ہے اور لوگ بھی غصے میں ہیں، لیکن ساتھ ہی یو ٹرن لیتے ہوئے ملبہ کسی اور پر ڈال دیا۔ کہا کہ اس مہنگائی کے ذمہ دار ہم نہیں۔ تین سال سے حکومت میں ہیں اور کہتے ہیں کہ مہنگائی ہماری وجہ سے نہیں۔ کوئی پوچھنے والا جو نہیں کہ چینی کا سٹاک ملکی ضروریات کیلئے ناکافی تھا تو آپ کی حکومت نے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت کیوں دی۔ ملک میں ڈالرز کی قلت کے باوجود آپ کی حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں 18.98 ملین ڈالر کی چینی امپورٹ کی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے لابنگ فرمز کو لاکھوں ڈالرز ادا کئے۔
پہلے ڈراپ سائٹ ، دی گارڈین اور اب نیویارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل نے یہ راز فاش کیا۔ ہم لوگ سیاسی جماعتوں کی جنگ لڑنے کے لئے جان بھی دے دی گے لیکن اپنے حقوق کے لئے کھڑا ہونا شاید ہمارے ڈی این اے میں نہیں۔ عوام ان حکمرانوں سے سوال نہیں کر سکتی۔
ستائیسویں ترمیم کے بعد تو عوام کا پتا ہی صاف ہو گیا ہے۔ حکمرانوں اور طاقتوروں کو قانونی تحفظ اور استشنی جو حاصل ہے۔ وہ جو خواجہ آصف صاحب سرعام کہتے ہیں کہ کچھ شرم اور کچھ حیا ہونی چاہیے ، خواجہ آصف اور ان کی حکومت سب سے پہلے اس جملے پر خود عمل کیوں نہیں کرتے؟ کچھ اپنے گریبان میں بھی تو جھانک لیں کہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے کا نعرہ لگا کر ملک کو نام نہاد "ہارٹ اسٹیٹ” بنانے پر سہولت کاری میں پیش پیش ہیں۔
ویسے سابق وزیراعظم عمران خان پر یہ الزام لگتا رہا کہ وہ چین ماڈل فالو کر رہے ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ تو شمالی کوریا اور چینی ماڈل کی بنیاد رکھ چکا۔ ستائیسویں ترمیم کا خمار سر چڑھ کر بول رہا ہے۔اشرافیہ تو لولی لنگڑی جمہوریت میں بھی عوام کو جوابدہ نہ تھی۔ اب تاحیات استشنی اور اقتدار پر طویل قبضے کی تیاری مکمل ہونے کے بعد تو صرف عوام ہی ان کے سامنے جوابدہ ہیں۔آج کل کے حالات دیکھ کر فیض احمد فیض کی نظم کا مصرع بار بار ذہن میں گونجتا ہے!
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے





