خبررساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق کورونا وائرس امریکی جیلوں میں پھیلنے لگا ہے جس کے باعث نہ صرف سینکڑوں قیدیوں بلکہ وہاں کام کرنے والا اسٹاف بھی اس کا شکار ہو گیا ہے۔
نیویارک کی رائیکرز آئی لینڈ جیل میں موجود ایک قیدی نے رائٹرز کو بتایا کہ جب وہ اپنے سیل سے نکلتے ہیں تو کورونا وائرس سے بچنے کے لیے انکا واحد دفاع ٹی شرٹ یا تولیہ ہوتا جسے وہ منہ پر باندھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک قیدیوں کو دستانے دیے گئے ہیں اور نہ ہی ماسک جبکہ تمام لوگ یخ پانی سے ہاتھ دھوتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں قیدیوں نے ایک خاتون محافظ کو دیکھا جسکا چہرہ شدید کھانسی سے سرخ ہوگیا اور وہ وہیں زمین پر گر گئی۔
قیدی کا کہنا تھا کہ ہم جب کورونا سے بچاؤ کے لیے افسران کی منت سماجت کرتے ہیں تو وہ محض اپنے کندھے ہلا کر لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔
اس نے تلخی سے کہا کہ آخرکار ہم قیدی ہیں، دوسرے درجے کے شہری، ہم جانوروں کی طرح ہیں۔
امریکہ میں کورونا وائرس کیسز کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہو گئی
دنیا ڈوب گئی لیکن دنیا کا امیر ترین شخص مزید امیر ہوگیا
;ہم نے بہت وقت ضائع کر دیا، نیویارک کے ڈاکٹر کی وارننگ
اسی جیل سے پیر کو رہائی پانے والے ایک قیدی کے مطابق وہاں بیمار اور تندرست، دونوں آزادی سے میل جول رکھتے ہیں۔
اسکے مطابق جب وہاں ایک گارڈ اور قیدی میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تو وہ اپنے سیل میں ہی زیادہ تر رہتے تھے اور باہر نکلنے سے گریز کرتے تھے لیکن انہیں پھر بھی انسداد منشیات کے علاج کے تحت روزانہ دوا لینے کے لیے کھڑکی کے باہر دیگر قیدیوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا تھا۔
ایک 32 سالہ قیدی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ جیل میں کوئی تحفظ نہیں، آپ وہاں لوگوں سے دور ہونا چاہتے بھی ہیں تو نہیں ہو سکتے۔
جارجیا کی ایک جیل میں چوری کے الزام میں قید 21 سالہ قیدی کو 103 درجے کا بخار ہوا اور ساتھ ساتھ کھانسی کی شکایت ہوئی، رائٹرز سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ کیفیت برداشت سے باہر تھی پھر بھی چار دن بعد اس کا طبی معائنہ کیا گیا۔
اس نے کہا کہ مجھے نہیں بتایا گیا کہ میرا کورونا وائرس ٹیسٹ کیا جا رہا ہے لیکن ڈاکٹر نے سنٹر کے افسران سے کہا کہ مجھے قرنطینہ میں منتقل کر دیا جائے۔
21 سالہ قیدی نے بتایا کہ کچھ ہی گھنٹوں بعد اسے رہا کر دیا گیا تاہم اس کے خیال میں جیل میں دیگر افراد بھی متاثر ہوئے ہیں۔
اب تک سنٹر کے ایک افسر میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہیں جبکہ دوسرے افسر میں علامات ظاہر کے بعد اسے بھی الگ تھلگ کردیا گیا ہے.
کولاراڈو کے وفاقی قید خانے میں موجود 55 سالہ سٹیو جونز نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اگر وائرس یہاں داخل ہو گیا، جس کا سب کو خدشہ ہے، تو تمام لوگ برباد ہو جائیں گے۔
کورونا وائرس کے باعث امریکہ شدید بیروزگاری کے چنگل میں
حکومت کورونا کے اعداد و شمار چھپا رہی ہے، پانی سر سے گزر چکا، پمز کے ڈاکٹر کا دعویٰ
وفاقی قید خانے کے گارڈز نے ڈیوٹی کے وقت ماسکس پہننے کی اجازت طلب کی ہے مگر ملازمین کی یونین کے نائب صدر کے مطابق پریزن بیورو نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق کچھ عدالتیں اب صورتحال کی سنگینی کو محسوس کر رہی ہیں، ایک وفاقی جج نے جمعرات کے روز کاؤنٹی جیلوں میں 10 قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے ہیں۔
نیو جرسی کے چیف جسٹس نے 1000 قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے، اسی طرح لاس اینجلس کاؤنٹی نے 1700 قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
کیلیفورنیا کی سانتا کلارا کاؤنٹی سے حکام نے 400 قیدیوں کو رہا کیا جبکہ ٹیکساس سے 500 قیدیوں کو رہائی ملی۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر گزشتہ ہفتے نیو یارک سٹی میں 450 قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
شہر کے مئیر کے ترجمان کے مطابق سینکڑوں مزید قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اس حوالے سے اعلیٰ حکام، عدالتوں اور سرکاری وکیلوں کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے۔
امریکہ میں ایک ڈسٹرکٹ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ وباء کی وجہ سے غیرقانونی نقل مکانی کرنے والوں کے قید خانے میں موجود افراد کی جانوں کو شدید خطرہ ہے۔
رائٹرز کے مطابق جمعہ کے روز تک نیویارک کی جیلوں میں اسٹاف کے کم ازکم 80 اور قیدیوں میں 130 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
نیو یارک کی ان جیلوں میں، جو گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کے لیے مشہور ہیں، وائرس بہت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔
محکمہ کے افسران کے مطابق قیدیوں کو بچانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم انہوں نے جیل گارڈ کی بیہوشی کے بارے میں بیان پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔
رائٹرز کے مطابق امریکہ بھر کی جیلوں میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی خبریں آ رہی ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے اور کچھ کیسز میں قیدیوں کی طبی اسکریننگ نہیں کی جارہی جس کی وجہ سے معاشرے میں مزید وباء پھیلنے کا خدشہ ہے۔
رائٹرز کے سروے کے مطابق امریکہ کی 20 بڑی جیلوں میں 104 کی تعداد میں اسٹاف اور 146 قیدیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے تاہم وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے پیش نظر یہ تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
اتوار کے روز کورونا کے پہلے کیس کی تصدیق ہونے تک 38 قیدی اور 9 اسٹاف وائرس کا شکار ہو چکے تھے۔ 123 قیدیوں کی ٹیسٹ رپورٹس آنا ابھی باقی ہیں۔
رائٹرز نے امریکہ کی درجنوں جیلوں کا سروے کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس کے پھیلنے سے بچاؤ کے لیے کوئی یکساں پالیسی نہیں ہے.
مقامی افسران، انسانی حقوق کے علمبردار اور قیدیوں کے وکلاء مطالبہ کر رہے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل تیزی سے کیا جائے۔
امریکی جیل کے نظام کے تحت جیلوں میں وہ قیدی ہوتے ہیں جنکا ٹرائل ابھی ہونا ہو اور یہ کم وقت کے لیے جیلوں میں قید ہوتے ہیں جبکہ اسٹیٹ یا فیڈرل جیلوں میں سزا یافتہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
اس وقت امریکہ میں کسی بھی ملک کی جیلوں سے زیادہ قیدی موجود ہیں، امریکی جسٹس سٹیٹسٹکس بیورو کے مطابق 2017 تک 23 لاکھ قیدی تھے جن میں تقریبا 15 لاکھ سزا یافتہ قیدی سٹیٹ اور فیڈرل جیلوں میں تھے جبکہ 7 لاکھ 45 ہزار مقامی جیلوں میں قید ہیں۔