وفاقی وزیرعلی زیدی کی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے معاملات میں مداخلت پراسلام آباد ہائیکورٹ نے اظہاربرہمی کر دیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ وفاقی وزیر کیسے کے پی ٹی معاملات میں مداخلت کر سکتا ہے؟
چیئرمین کے پی ٹی تعیناتی کیس میں چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ علی زیدی کی کے پی ٹی کے روزمرہ معاملات میں مداخلت تو الگ سے ایک کیس ہے۔
دوران سماعت وزارت میری ٹائم کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے آڈٹ کا حکم دیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کوٹ نے سوال پوچھا کہ علی زیدی نے کس قانون کے تحت آڈٹ کا حکم دے دیا، انہوں نے دریافت کیا کہ آڈیٹر کو غیر قانونی طور پر تعینات کیا گیا ہے، انکی فیس کون ادا کر رہا ہے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ اختیارات کےغلط استعمال پرتو نیب کیس بن جاتا ہے، دیکھ لیں نیب کےسب کیس یہی ہیں۔
عدالت نے وفاقی وزیرعلی زیدی اور سیکرٹری میری ٹائم افیئرز سے غیرقانونی مداخلت پرتفصیلی جواب طلب کر لیا۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے چیئرمین کے پی ٹی تعیناتی کے دو نوٹیفیکشن پیش کر دیے گئے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں، 2017 کا وفاقی حکومت کا فیصلہ کہاں ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تعیناتی کے دو نوٹیفکیشن موجود ہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے دوسال مدت والا دوسرا نوٹیفکیشن جعلی بنایا گیا ہے۔
عدالت نے دو نوٹیفکیشن پیش کرنے پر نمائندہ وزارت میری ٹائم افیئرز کو جھاڑ پلا دی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے پر آنکھیں نہیں بند کرسکتی، وزارت میری ٹائم جو بھی دلائل دیتی ہے وہ غلط ثابت ہو رہے ہیں۔
انہوں نے تنبیہ کی کہ عدالت کو گمراہ کریں گے تو یہ اچھا نہیں ہوگا،
یہ تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ وفاقی کابینہ نے 3 سال کیلئے چیئرمین کی تعیناتی کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت حکومت کو وقت دے رہی ہے کہ وہ معاملے کا ازسرنو جائزہ لیکرمعاونت کرے۔
عدالت نے سماعت 16 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور وزارت میری ٹائم افئیرز سے تفصیلی جواب طلب کر لیا۔
یاد ہے کہ جمیل اختر نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹائے جانے کو چیلنج کر رکھا ہے۔