کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ واقعہ ایک معمر شخص کے ساتھ پیش آیا۔ وہ خوفزدہ حالت میں گھر پہنچا، اس نے بتایا کہ جب وہ گھر کے قریب پہنچا توجھاڑیوں میں چھپی کسی مخلوق نے اس پر حملہ کر دیا۔ اندھیرے کے باعث اس کی شکل و صورت نظر نہیں آئی مگر وہ کسی کتے یا لومڑی جیسا لگ رہا تھا، اس بوڑھے شخص نے بتایا کہ اجنبی مخلوق نے حملہ کر کے اسے گرا دیا، کچھ دیر اسے اپنے پنجوں سے چھوتی رہی اور پھر بھاگ گئی۔
اگلے دن ایک اور محلے سے ایسی ہی خبر آئی، واقعہ دن کا تھا اور حملہ ایک نوجوان پر ہوا تھا جو ٹیوشن پڑھنے جا رہا تھا، اس نے بتایا کہ ایک عجیب سی مخلوق کہیں سے برآمد ہوئی اور اس پر حملہ کر دیا، اس کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ اس جانور نما چیز نے نوجوان کو زمین پر گرا دیا کچھ دیر اسے اس کے جسم سے پنجے رگڑتای رہی اور پھر غائب ہو گئی۔
دھیرے دھیرے واقعات کی تعداد بڑھتی گئی اور شہر میں خوف و ہراس پھیلنے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ کسی جنگل سے عجیب الخلقت قسم کے جانور نکل کر شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔اس شکل اور ساخت کے جانور پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔
چند دن گزرے تو ان کی زد میں آنے والے بہت سے لوگوں کے کندھوں پر گلٹیاں نمودار ہونے لگیں جو بڑھتے بڑھتے ان کے گلے تک پہنچ گئیں، پھر یہ گلے کے اندر پھیلنے لگیں یہاں تک کہ لوگوں کا سانس بند ہونے لگا۔ اسپتال متاثرین سے بھر گئے، روزانہ اموات ہونے لگیں، بہت سے خوش قسمت افراد کو اسپتال میں آکسیجن لگا دی گئی اور کئی روز کی تکلیف کے بعد وہ صحتیاب ہونے لگے۔ البتہ یہ ہوا کہ صحتیاب ہونے والے انسان کو اگر دوبارہ کسی جانور نے چھو لیا تو پھر وہ شخص کسی طور نہ بچ پایا۔
گلیوں اور بازاروں میں عجیب الخلقت جانوروں کی تعداد بڑھتی گئی تو حکومت حرکت میں آ گئی۔ پولیس اور فوج نے پہلے اس مخلوق کو پکڑنے کی کوشش کی، اس میں ناکامی ہوئی تو اسلحہ استعمال کر کے انہیں مار دینے کا حکم مل دیا۔ لیکن یہ عجیب جانور تھے جن کے جسم سے گولیاں پھسل جاتی تھیں۔ ہر قسم کا اسلحہ استعمال کر کے دیکھ لیا مگر یوں لگتا تھا جیسے ان کے جسم پر کوئی بہت مضبوط زرہ بکتر لپٹی ہوئی ہے۔ الٹا پولیس اور فوج کے اہلکار خود جانوروں کا نشانہ بننے لگے۔
پوری دنیا سے سائنسدانوں کی آمد شروع ہو گئی، عالمی میڈیا پر خبریں چلنے لگیں، حکومتی عہدیدار اور اداروں کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے مگر کسی کو اس مشکل کا حل سجھائی نہیں دیا۔ اس دوران کچھ جانور خود سے مرنے لگے مگر جتنے مرتے تھے اس سے زیادہ نمودار ہو جاتے تھے۔ حکومت نے چند مردہ جانور چپکے سے اٹھا کر سائنسدانوں کے حوالے کر دیے اور وہ ان پر تحقیقات کرنے لگے۔
کئی روز بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ زمینی مخلوق نہیں ہے بلکہ کسی اور سیارے سے کرہ ارض پر آن ٹپکی ہے۔ اگرچہ اس وقت وہ جانوروں کی شکل میں ہے لیکن اس میں بھیس بدلنے کی صلاحیت پائی گئی ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگلے مرحلے میں یہ انسانوں کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے دے۔
حکومت نے اعلانات شروع کر دیے کہ سب لوگ گھروں کو تالے لگا کر اندر بیٹھ جائیں۔ شہر کے لوگ مذہب پر یقین رکھتے تھے اس لیے بہت سوں نے عبادت گاہوں میں جانا نہ چھوڑا جس کے باعث وہ بھی شکار ہونے لگے۔ حکومت نے مذہبی رہنماؤں سے مدد مانگی جنہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے گھروں تک محدود رہیں اور وہیں عبادات کرتے رہیں کیونکہ باہر خطرہ ہے اور اپنی جان کی حفاظت سب سے اہم ہے۔ لوگوں نے ان کی بات مان لی اور گھروں میں قید ہو کر بیٹھ گئے۔
گلیاں، بازار، ہوٹلیں اور عبادت گاہیں ویران ہو گئیں، حکومت نے فضا سے گھروں میں خوراک پھینکنا شروع کیں، بعد میں کئی کمپنیاں میدان میں آ گئیں جنہوں نے کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کرنے والوں کو ڈرونز کے ذریعے اشیاء مہیا کرنا شروع کر دیں۔ جن لوگوں کے پاس خریداری کی سکت نہیں تھی، انہیں حکومت نے امداد ینا شروع کر دی، یوں بنیادی سازوسامان کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن کاروبار زندگی یکسر تھم گیا۔
اس دوران بیمار انسانوں پر تحقیق کی گئی تو ایک نئی قسم کا جرثومہ سامنے آیا جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ مردہ جانوروں کے جسم سے بھی وہی جرثومہ دریافت ہوا تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ انسانوں میں جرثومہ اسی مخلوق کے ذریعے منتقل ہو رہا ہے اور ان کی جان لے رہا ہے۔
سائنسدان مسلسل تحقیق میں لگے رہے ، اس دوران کئی نظریات سامنے آئے تاہم سب سے سینئر سائنسدان کی بات زیادہ دل کو لگی۔ اس کا کہنا تھا کہ جس سیارے پر یہ مخلوق رہتی ہے، غالب امکان ہے کہ وہاں وبا پھیل گئی ہے جس سے گھبرا کر یہ وہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ ان میں سے چند زمین پر پہنچے اور اتفاقاً انسانوں کو انہوں نے چھوا تو وہ صحتیاب ہونے لگے اور انسان بیمار ہونا شروع ہو گئے۔ دانا سائنسدان کا خیال تھا کہ صحت یاب ہونے والے جب اپنے سیارے پر پہنچے اور انہوں نے باقیوں کو بتایا تو مزید مخلوق بیماری سے نجات کے لیے زمین پر اترنا شروع ہو گئی۔
جب لاک ڈاؤن کو کئی روز گزر گئے تو اچانک خلائی مخلوق کی تعداد کم ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے سبھی غائب ہو گئے ۔ حکومت نے ہر جگہ تلاش کیا مگر یوں لگتا تھا جیسے انہیں زمین کھا گئی ہے یا آسمان نگل گیا ہے۔ حکومتی عہدیداروں اور سائنسدانوں نے ایک اور مشترکہ میٹنگ طلب کی جس میں سب کا اتفاق تھا کہ چونکہ اس مخلوق کو اب انسان میسر نہیں ہیں اس لیے یہ شہر چھوڑ گئی ہے۔
دھیرے دھیرے لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا شروع کر دیا، حکومت نے بھی نہ روکا اور یوں چند روز میں ہی بازاروں کی رونقیں بحال ہونے لگیں، عبادت گاہیں پھر سے بھر گئیں، اس بار لوگوں کا رش اور بھی زیادہ تھا، کچھ شکر ادا کرنے آئے تو کچھ آئندہ ایسی بلاؤں سے نجات کی دعائیں کرنے لگے۔
لیکن چند روز بعد معلوم ہوا کہ لوگ اب بھی بیمار ہو رہے ہیں، گھر سے باہر نکلنے والے کئی لوگوں کے کندھوں پر گلٹیاں نمودار ہونے لگیں، کچھ خود سے صحتیاب ہو گئے اور بہت سوں کو اسپتال جانا پڑا۔ اموات کا سلسلہ پھر سے جاری ہو گیا اور اسپتال بھرنے لگے۔
حاکم وقت نے ایک مرتبہ پھر اجلاس طلب کیا جس میں اس کے مشیروں اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ سب سر جوڑ کر بیٹھے اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ لوگ گھروں میں چھپ گئے تھے اس لیے خلائی مخلوق کی صحتیابی کا راستہ بھی بند ہو گیا تھا اس لیے اس نے بھیس بدل کر نادیدہ شکل اختیار کر لی ہے تاکہ لوگ گھروں سے باہر نکل آئیں۔
حکومت کے لیے یہ نئی پریشانی تھی، اس نے ایک بار پھر اعلانات کیے کہ سب اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں کیونکہ مخلوق اب بھی موجود ہے لیکن اس نے خود کو نظروں سے اوجھل کر لیا ہے۔
مگر اس بار کم لوگوں نے حکومتی حکم کی پرواہ کی، زیادہ تر اپنے کاموں میں مصروف رہے۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر مذہبی رہنماؤں سے تعاون مانگا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عبادت گاہوں کو ویران نہیں رکھا جا سکتا۔ جب انہیں کہا گیا کہ پہلے تو حکومت کی بات مان لی گئی تھی اب انکار کس لیے کر رہے ہوتو انہوں نے کہا کہ اس وقت جانور ہر طرف پھر رہے تھے، انسانی جان کو واضح خطرہ تھا لیکن اب وہ مخلوق نظر نہیں آ رہی، ہو سکتا ہے کہ بیماری کی وجہ کچھ اور ہو، ایک غیرواضح صورتحال میں اجتماعی عبادات ترک نہیں کی جا سکتیں۔ حکومت علاج تلاش کرے اور ہم وبا سے نجات کی دعا کرتے ہیں۔ انہوں نے الٹا شہر کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ عبادت گاہوں میں آنے اور دعا کرنے کا کہا اور لوگوں نے ہمیشہ کی طرح حکومت کے بجائے ان کی بات مان لی۔
حکومت نے ایک بار پھر سائنسدانوں کے ساتھ مشترکہ اجلاس بلایا۔ حاکم وقت کے سب سے سینئر اور دانا مشیر سے اس کی رائے لی گئی کہ لوگ کس لیے گھروں میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں تو اس نے کہا کہ لوگ نادیدہ پر اس طرح یقین نہیں رکھتے جس طرح دیدہ پر ان کا ایمان ہوتا ہے۔ پہلے مخلوق نظر آ رہی تھی تو سب خوفزدہ ہو گئے، اب چونکہ وہ نظر نہیں آ رہی اس لیے خوف کی شدت کم ہو گئی ہے۔
حاکم وقت نے اس سے پوچھا کہ ہمارے لوگ تو بہت مذہبی ہیں، وہ تو ویسے بھی نادیدہ پر ایمان رکھتے ہیں، مذہبی رہنماؤں کا ایمان تو اور بھی پختہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے انہوں نے بات مان لی تھی اور اب نہیں مان رہے۔
دانا مشیر نے کہا کہ نادیدہ پر ایمان کا دعویٰ سب کرتے ہیں لیکن یہ محض دعویٰ ہی ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ فقط دیکھ کر ہی یقین کرتا ہے، اس میں عام آدمی اور مذہبی رہنما کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ جب تک یہ مخلوق نظروں سے اوجھل رہے گی، زیادہ تر لوگ باہر نکلتے رہیں گے اور اس کا شکار ہوتے رہیں گے۔
تھک ہار کر حاکم وقت نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تاہم ان کے شہر چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی تاکہ ایسا نہ ہو کہ دوسرے شہروں میں جانے والے اپنے پیچھے پیچھے خلائی مخلوق کو بھی لیتے آئیں اور یہ وبا پورے ملک میں پھیل جائے۔
کہتے ہیں کہ لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا نہ چھوڑا، بازاروں کی گہما گہمی جاری رہی، اجتماعات بھی ہوتے رہے اور عبادت گاہیں بھی بھری رہیں ۔ ایک برس تک خلائی مخلوق لوگوں کو شکار کرتی رہی اور آخرکار مکمل مکمل صحت یابی کا تحفہ لے کر رخصت ہو گئی، اس تمام عرصے میں شہر کی آبادی کم ہوتے ہوتے اسقدر تھوڑی رہ گئی کہ بہت تلاش کے بعد کہیں لوگ نظر آتے تھے۔ یہ ایسے افراد تھے جنہوں نے گھر سے باہر قدم نہ رکھا اور حکومت سے امداد لے کر گزارا کرتے رہے۔
جب مخلوق کا خطرہ پوری طرح ٹل گیا تو حکومت نے احکامات میں نرمی کر دی اور باقی ماندہ لوگ بھی شہر چھوڑ گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہاں جنگل اگ آیا۔ بیس سال بعد حکومت نے شہر کے بازار، مکانات اور عبادت گاہوں کو اپنے قبضے میں لے کر انہیں سیاحوں کے لیے کھول دیا۔ لیکن لوگ اب بھی یہاں آتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ انہوں نے نادیدہ مخلوق کی تباہ کاری دیکھ لی تھی۔