سی سی پی او لاہور شیخ محمد عمر جب سے تعینات ہوئے ہیں تب سے مسلسل معافیاں مانگ رہے ہیں۔ تعیناتی کے فوری بعد لاہور۔ سیالکوٹ موٹر وے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کا سانحہ ہوا۔ میڈیا کے سامنے سی سی پی او نے ایک بیان دیا جس کی شدید مذمت کی گئی تھی اور سی سی پی او نے اپنے بیان پر باقاعدہ معافی مانگی تھی۔
سی سی پی او لاہور کے مطابق ان کی بات کا وہ مقصد نہیں تھا جیسے اسے پیش کیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے میڈیا اور پھر عدالت میں بھی معافی مانگی تھی۔ آج انہوں نے سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں کہا کہ میڈیا کے سامنے بار بار معافی مانگی اگر میڈیا میری معافی کو نہ دکھائے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
قومی اسمبلی استحقاق کمیٹی میں محسن نواز رانجھا نے بھی ان پر چڑھائی کی اور انہوں نے ایک بار پھر ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی۔ استحقاق کمیٹی میں معافی مانگتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں سرائیکی ہوں اور وسطی پنجاب کے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں بھی محسن نواز رانجھا اور سی سی پی او میں نوک جھونک ہوئی جس پر ایک مرتبہ پھر سی سی پی او نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی۔
آج سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں سانحہ موٹر وے پر بریفنگ دیتے ہوئے عابد ملہی کا نام دو تین بار غلطی سے بابر کہہ دیا تو سینیٹر قرۃ العین مری نے سوال کیا کہ ریپ کرنے والے مفرور کا نام عابد ہے یا بابر؟ سی سی پی او نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ عابد ملہی نام ہے۔ میری عمر 58 برس ہو گئی ہے اور اب یادداشت بھی ویسے ہو گئی ہے۔
سی سی پی او لاہورشیخ محمد عمر نے کہا کہ میں تو معافیاں مانگ مانگ کے ذلیل ہو گیا ہوں۔ جب سے آیا ہوں مسلسل معافیاں مانگ رہا ہوں۔ ایک بار مشترکہ اجلاس بلوا لیں تاکہ میں ہر ایک ایم این اے اور ہر سینیٹرکے سامنے جا کر معافی مانگ لوں۔
انسانی حقوق کمیٹی کی کارروائی کی تفصیل
لاہور موٹر وے زیادتی کیس کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں سی سی پی او لاہور کو طلب کیا تھا ان کی عدم شرکت کی وجہ سے کمیٹی نے سخت ایکشن لیتے ہوئے سمن جاری کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 2 برسوں میں پہلی بار ہم سمن جاری کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سانحہ لاہور۔سیالکوٹ موٹروے کی وجہ سے پورا ملک دکھ اور غم کی حالت میں ہے۔ انسانی حقوق کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے متعلقہ جگہ کا دورہ کرتے ہوئے تفصیلی آگاہی حاصل کی ہے۔
سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے کمیٹی کو بتایا کہ انہیں چیف جسٹس نے بلایا ہوا تھا اس لیے کمیٹی اجلاس میں نہیں آ سکا۔ کمیٹی کو بریفنگ کے لیے اپنی بہترین ٹیم بھیجی تھی۔ ٹیم کمیٹی کو مطمئن نہیں کر سکی تھی جس کی وجہ سے سمن کیا گیا۔ سی سی پی او نے مزید کہا کہ میں کمیٹی کو اس سانحہ پر مکمل بریف کر چکا ہوں۔
سی سی پی او نے کہا کہ یہ واقعہ 9 ستمبر کو پیش آیا۔ متاثرہ خاتون نے رات ڈیڑھ بجے سفر شروع کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ خاوند کی اجازت کے بغیر خاتون لاہور آئی تھی اور خاوند کے ڈر کی وجہ سے واپس گھر جا رہی تھی۔ ٹال پلازہ سے چند کلومیٹر آگے جا کر گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ لاہور سے اس جگہ تک چار اتھارٹیز آتی ہیں جہاں چار مختلف ہیلپ لائنز ہیں۔
شیخ محمد عمر نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ خاتون نے اپنے رشتہ دار کو فون کیا جس نے 130 ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا۔ جہاں سے ایف ڈبلیو او کے میجر سے کانفرنس کال کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ رنگ روڈ اتھارٹی کی سیکیورٹی کی اتھارٹی کمشنر کے انڈر ہے۔ موٹر وے ٹول پلازہ پر نہ سی سی ٹی وی فوٹیج ہے نہ ہی پرچی پر ٹائم لکھا ہے۔ موٹر وے کا بھی عجیب نظام ہے۔ انکوائری نمبر موٹر وے کا ہے۔ مددگار گاڑیاں ایف ڈبلیو او کے انڈر ہیں۔ ایف ڈبلیو او کے میجر نے گاڑی بھیجی۔ گاڑی ایم ٹو پر تھی اس کے پہنچنے پر دیر لگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ اطلاع ون فائیو پر ہونی چاہئے تھی۔ اگر ون فائیو پر کال ہوتی تو ہم اس جگہ پر 25 منٹ میں پہنچ سکتے تھے۔ ون فائیو پر پہلی کال 2 بجکر 47 منٹ پر آئی جو وہاں سے گزرنے والے شخص نے کال کی۔ ون فائیو 3 بجکر 15 منٹ پر پہنچ گئے۔
اس پر سینیٹر قرہ العین مری نے کہا کہ ہم نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا تو پولیس حکام نے بتایا کہ راہ گیر نے 24 کلو میٹر آگے جا کر فون کیا تھا اور یہی بات ڈی آئی جی نے بھی گزشتہ کمیٹی اجلاس میں بیان کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2 بجکر 53 منٹ پر ڈولفن اہلکار پہنچ گئے تھے۔
سی سی پی او نے کہا کہ ہم نے 72 گھنٹے میں ملزمان کی نشاندہی کر لی تھی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ عابد اورشفقت کا ڈی این اے میچ کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی طرح ملک بھر میں ایک ہیلپ لائن نمبر ہونا چاہیے اورقانون شہادت میں ترمیم ہونی چاہیے۔
سی سی پی او نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ عابد ملہی کا ایک کیس میں پہلے بھی ڈی این اے میچ کر چکا تھا لیکن گواہ کے مکرنے کی وجہ سے وہ رہا ہو گیا۔ ڈی این اے میچ کرنے کے بعد بھی ہم پر تلوار لٹک رہی تھی کہ اگر متاثرہ خاتون نے پہچاننے سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ پولیس میں کورٹ مارشل لانا چاہیے۔ سائنسی شواہد کی روشنی میں کیس آگے بڑھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ نئے روڈز کھل گئے ہیں مگر اسٹاف اور دیگر متعلقہ ایکوپمنٹ فراہم نہیں کی گئی۔
سی سی پی او نے کہا کہ جب میں ڈی آئی جی تھا تو آئی جی موٹر وے کے ساتھ متعلقہ حکام سے ملاقات کی تھی جس میں کہا تھا کہ نئے روڈز کیلئے عملہ فراہم کیا جائے مگر پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتریہی ہے کہ آئندہ اجلاس میں چیئرمین این ایچ اے، سیکرٹری مواصلات، آئی جی موٹر وے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کریں۔
کمیٹی نے ملزم عابد علی کے 2013 کے کیسز کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔