اسلام آباد ہائی کورٹ نے حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نادرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ حافظ حمد اللہ کا بیٹا ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوا ہے، کیا ان کی شہریت پر شک کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حافظ حمد اللہ کی پاکستان میں جائیدادیں ہیں، وہ پارلیمنٹرین ہیں، آپ کیسے ان کی شہریت منسوخ کر سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت اس طرح شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونے دے گی۔
انہوں نے نادرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت آپ لوگوں کی شہریت پر سوال اٹھاتے ہیں؟ یہ تو ایلیٹ کلاس ہے، عام لوگوں کے ساتھ معلوم نہیں آپ کیا کرتے ہوں گے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ اتنا عرصہ ہوا روزانہ کی بنیاد پر پٹیشنز فائل ہو رہی ہیں، اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کریں گے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وہ کون سے کیسز ہیں جن میں شہریت نہ ہونے سے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے؟ وکیل نے کہا کہ حافظ حمداللہ کا کیس بھی شہریت کی بنیاد پر بلاک کیے گئے شناختی کارڈ کا کیس ہے، ایجنسیز سے رپورٹ آنے پر کسی شہری کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس کورٹ کا رجسٹرارآپ کو کچھ بھیج دے توکیا آپ کسی کی شہریت بھی منسوخ کر دیں؟ اس پر نادرا کے وکیل نے جواب دیا کہ سیکشن 18 کے تحت شہری کو ایک شوکاز نوٹس کرتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ حافظ حمد اللہ کا کارڈ آپ نے کیوں منسوخ کیا، وہ تو پارلیمنٹرین بھی ہیں؟ آپ کو پتہ ہے شناختی کارڈ منسوخ کرنے کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا آپ آنکھیں بند کرکے یہ کرتے ہیں؟ آپ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں، 2سال سے آپ کو بتا رہے ہیں کہ نادرا کو اس قسم کا کوئی اختیار نہیں۔