سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی سے زیادتی کا معاملہ جسٹس فار پیس کو بھیجنے کے خلاف سینیٹر رحمان ملک کی درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
6 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی محمد امین نے تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ رحمان ملک کو تمام قانونی حقوق حاصل ہیں لیکن رحمان ملک اعلیٰ منصب پر فائز رہنے یا سینٹ کے ممبر ہونے پر استثنی کا حق نہیں مانگ سکتے۔
رحمان ملک پر زیادتی کا الزام لگانے والی خاتون سنتھیا رچی نے مزید تفصیل بتا دی
امریکی خاتون سنتھیا رچی کا سفری ریکارڈ سامنے آ گیا، 52 بار پاکستان آئیں
عدالت نے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ کوئی جتنے بڑے عہدے پر فائز ہو جائے قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا، عوامی عہدہ رکھنے والوں کو جرم کرنے کی چھوٹ نہیں دی جاسکتی، عوامی عہدہ رکھنے والوں کا کردار بلند اور عوامی اعتماد کا عکاس ہونا چاہیے۔ صدر، وزیراعظم سمیت دیگر ریاستی عہدایداروں کو حاصل استثنیٰ صرف دفتری امور کی حد تک ہے۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی نے رواں سال 5 جون کو فیس بک پر اپنی ویڈیو میں رحمان ملک پر زیادتی کا الزام لگایا، پولیس میں مقدمہ درج نہ ہونے پر امریکی شہری نے جسٹس آف پیس میں درخواست دائر کی جس نے زیادتی کے الزامات سے متعلق پولیس رپورٹ منفی آنے پر سنتھیا کی درخواست اگست میں خارج کر دی۔
کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیئے کہ امریکی شہری نے 10 سال کی معنی خیز خاموشی کے بعد اچانک سابق وفاقی وزیر اور موجودہ سینیٹر کے خلاف زیادتی کے الزامات کسی اچھی نیت سے نہیں لگائے اور ان کے خلاف ایف آئی آر کی درخواست کا مقصد درخواست گزار کی شہرت کو نقصان پہنچانا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ تفتیشی افسر سے سپرنٹنڈنٹ پولیس تک سبھی نے امریکی شہری کے الزامات کی سنگینی پر شبہ ظاہر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو متعلقہ فورم پر اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کوئی قانونی سقم نہ ہونے کے باعث مداخلت کی ضرورت نہیں۔
واضح رہے کہ رحمان ملک نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے کیس دوبارہ جسٹس آف پیس کو بھجوانے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔