بھارتی حکام نے مزدوری کی غرض سے بھیجے جانے والے 70 بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
ریاست بہار سے راجھستان بھیجے جانے والے بچوں میں 12 سالہ دیپک کمار بھی شامل تھا جو اپنے حالات سے تنگ ہو کر مزدوری کرنا چاہتا تھا۔
دیپک کا کہنا تھا کہ کورونا وبا سے قبل وہ ضلع گیا کے ایک مقامی اسکول میں پڑھتا تھا لیکن وبا پھیلنے کے بعد نا صرف اسکول بند ہو گئے بلکہ اس کے مزدور ماں باپ کا کام بھی ختم ہو گیا۔
آنسو بہاتے مزدور کی تصویر بھارت میں لاک ڈاؤن سے جڑے المیوں کا استعارہ بن گئی
بھارت میں لاک ڈاؤن سے جڑا ایک اور المیہ، 12 سالہ بچی پیدل چلتے چلتے دم توڑ گئی
دیپک نے بتایا کہ میرے سات بہن بھائی ہیں اور میرے ماں باپ ان کے کھانے پینے کا بندوبست بھی نہیں سکتے۔ گھر میں بڑا بھائی ہونے کے ناطے مجھے گزشتہ ماہ کام تلاش کرنے کے لیے بھیجا گیا۔
دیپک کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران میرے ماں باپ کے پاس کرنے کو کام نہیں تھا اور لاک ڈاؤن کے بعد ان کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ وہ ہماری خوراک کا بندوبست کر سکیں۔
اس نے بتایا کہ میرے سارے گھر والے کبھی ایک ہی وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں۔ اور مجھے کبھی کبھار بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔
دیپک نے بتایا کہ میں کام کروں گا تو اپنے گھر والوں کے کھانے کا بندوبست کر سکوں گا۔
واضح رہے کہ ریاست بہار کے ضلع گیا میں 80 ہزار سے زائد بچوں کو مزدوری کر کے گھر والوں کی مدد کرنی پڑتی ہے۔
دیپک کے والد کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کو بھوک سے بچنے کے لیے کام تلاش کرنے کا کہا تاکہ وہ خود کو اور بہن بھائیوں کو بھوکا مرنے سے بچا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے مجھے دن بھر کی مزدوری کے بعد دو کلو گندم ملتی تھی لیکن کام نا ہونے کی وجہ سے گھر میں کھانے پینے کو کچھ نہیں۔
بھارت میں کورونا کی وجہ سے جہاں ہزاروں لاکھوں افراد بیماری کا شکار ہوئے ہیں وہیں ملک میں غربت اور چائلڈ لیبر کی شرح میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے بچوں کی اسمگلنگ، چائلڈ لیبر اور چھوٹی عمر میں شادی جیسے مسائل کو نمٹنے میں بھارت کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا ہے۔
بچپن بچاؤ نامی ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹو دھننجے ٹنگل کا کہنا تھا کہ رواں سال اپریل اور ستمبر کے دوران میں نے 1200 بچوں کو اسمگل ہونے یا مزدوری کرنے سے بچایا۔
انہوں نے بتایا کہ ان میں 8 سے 18 سال کی عمر کے بچے شامل تھے۔ انہیں ایک مہینے کی ایک ہزار تنخواہ ملتی تھی۔
یاد رہے بھارت میں 14 سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کرانا غیر قانونی ہے۔ جب کہ 14 سے 18 سال کی عمر کے بچوں کو کسی کام کی اجازت دینے پر بھی پابندی ہے۔
دھننجے کا کہنا تھا کہ انہوں نے رواں ماہ 12 بچوں کو ہوٹل اور ڈھابوں سے بازیاب کرایا، یہ وہ بچے تھے جو پڑوسی ریاستوں سے اسمگل کر کے لائے گئے تھے۔ یہ بچے کورونا وبا سے قبل اسکول جاتے تھے۔
بھارت کی ریاست بہار کے دیہی علاقے غریب ترین شمار ہوتے ہیں۔ اس ریاست سے تعلق رکھنے والے 10 لاکھ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں۔
ہیومن لیبرٹی نیٹ ورک کے ایک عہدیدار سریش کمار کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ خوفناک ہے کہ معصوم بچوں کو بسوں میں بھر کر فیکٹریوں میں کام کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک ایسے 7 بچوں کو بازیاب کرا چکے ہیں۔