برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم دریافت ہوئی ہے جسے کووڈ 19 کے تیز رفتار پھیلاؤ سے منسلک کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ کے وزیر صحت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کو اس نئی قسم سے آگاہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لندن اور جنوبی برطانیہ کے مختلف علاقوں میں کووڈ کیسز کی شرح میں نمایاں تیزی کے بعد سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ کووڈ 19 کی نئی قسم سے کیسز میں اضافہ کیسے ہو رہا ہے، تاہم برطانوی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اب تک ایسے شواہد نہیں ملے کہ اس قسم کے شکار افراد میں بیماری کی شدت سنگین ہے اور ویکسینز اس کےخلاف بھی مؤثر ہوں گی۔
واضح رہے برطانیہ میں کم از کم 60 مقامی عہدیداروں نے نئی قسم کے کیسز کو رپورٹ کیا ہے۔
وزیرصحت میٹ ہینکوک نے برطانوی دارالعوم میں بتایا کہ اس وقت برطانیہ میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں کووڈ 19 کے کیسز کی شرح میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی برطانیہ میں ایک ہزار سے زائد کیسز میں اس نئی قسم کی شناخت کی گئی ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ ابھی ہم اس نئی قسم کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، تاہم اس کی وجہ جو بھی ہو، ہم اس حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کر رہے ہیں، تاکہ ویکسین کو متعارف کرانے کے ساتھ اس جان لیوا بیماری کر کنٹرول کیا جا سکے۔
خیال رہے طبی ماہرین کی جانب سے کورونا کی مختلف اقسام کو دریافت کرنے کے بارے میں گزشتہ مہینوں میں کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔
امریکہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس اب وہ نہیں رہا جو سب سے پہلے چین میں نمودار ہوا تھا۔
امریکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کورونا نے خود کو کچھ اس طرح بدل لیا ہے کہ وہ انسانوں کیلئے زیادہ متعدی ہو گیا ہے۔
امریکی تحقیق میں اصل وائرس کا موازنہ اس نئی قسم 614 جی سے متاثر افراد سے کیا گیا، تو ان کے ناک اور حلق میں وائرل لوڈ زیادہ تھا، جس سے بیماری کی شدت میں تو اضافہ نہیں ہوا، مگر دیگر تک اس کی منتقلی کی شرح بڑھ گئی۔
امریکی تحقیق کے مطابق اس تبدیلی سے وائرس کی یہ قسم زیادہ بہتر شکاری بن گئی، کیونکہ یہ برق رفتاری سے جسم کے اندر ایک سے دوسرے خلیات تک پہنچ کر تیزی سے اپنی نقول بناتی ہے۔
خیال رہے وائرس کی یہ قسم سب سے پہلے فروری 2020 میں یورپ میں ابھری تھی، اس حوالے سے پروفیسر رالف کا کہنا تھا کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے منتقل ہوا اور انسانوں کی شکل میں اپنے نئے میزبان کو دریافت کرلیا۔