وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے چین سے واپسی پر ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چین کی حکومت نے جو فیصلے کیے چینی عوام نے ان فیصلوں کو اہمیت دی اور ان پر عمل در آمد کر کے کرونا پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ چین میں کرونا کے نئے کیس آنا ختم ہو گئے ہیں، چین کے پاس کمال کی ٹیکنالوجی ہے جبکہ پاکستان اس سے محروم ہے۔
تفتان بارڈر پر زائرین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو ہوا ہے اس میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے یہ بہتر ہو سکتا تھا، تاہم یہ صوبائی حکومت کا کام تھا۔
جب اسد عمر سے سوال کیا گیا کہ چین میں وائرس کہاں سے آیا ہے تو انہوں نے کہا کہ چین کے صدر نے بھی ہمیں کہا ہے کہ اس بات کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ کرونا وائرس شروع کہاں سے ہواہے امریکہ چین پر الزام لگا رہا ہے چین نے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ امریکی صدر کے نزدیک صرف گورے ہی ٹھیک ہیں باقی سب خراب ہیں۔
انہوں نے کورونا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گرمی کے اوپر اکتفا نہیں کرنا خود بھی کچھ کرنا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ دنیا بھر میں تیزی سے قیمتیں گر رہی ہیں مگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس کو مختلف انداز میں دیکھا ہے، گنجائش تھی شرح سود کو مزید کم کیا جا سکتا تھا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے متعلق انہوں نے کہا کہ اس کا فائدہ عوام کو یکم اپریل سے ہو گا، آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی ہو گی۔
اسد عمر نے کہا کہ نواز شریف کو لندن بھجوانے کے لیے جب فیصلہ کیا جارہا تھا تب ہم سب کو شک تھا کہ یہ رپورٹیں ٹھیک بھی ہیں یا نہیں اس لیے میں نے تسلی کے لیے ڈاکٹر یاسمین راشد کو فون کیا، وہاں سے جواب آیا کہ نواز شریف حقیقتاََ بے تحاشہ بیمار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے لندن جا کر شاپنگ اور ملاقاتیں شروع کر دیں۔ نواز شریف اتنے بیمار نہیں تھے جتنی ان کی رپورٹیں بتا رہی تھیں اور ہم سمجھ رہے تھے۔
انہوں نے وزیر کا نام بتائے بغیر کہا کہ جب فیصلہ ہو رہا تھا تب ایک وزیر نے کہا کہ چالیس سال پہلے بھٹو صاحب مرے تھے وہ آج تک زندہ ہیں خدا کا واسطہ ہے ہمیں ایک اور شہید نہ دے دینا۔
اسد عمر کے مطابق اسی وزیر نے کہا کہ اگر آپ کو شک ہے کہ یہ حقیقتاََ اتنے بیمار نہیں ہیں تو بھی جانے دیں، نواز شریف کو واپس لانے کے طریقہ کار پر بھی آپس میں بحث ہے۔ عدالت کا فیصلہ تھا کہ رپورٹس وہاں سے بھیجیں گے۔
اسحاق ڈار کو برطانیہ سے واپس لانے کے سوال پر اسد عمر نے کہا کہ الطاف حسین بیس سال سے برطاینہ میں بیٹھا ہوا ہے، ہم نے اس کا کیا کر لیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو جانے کی اجازت عدالتوں نے دی ہے، ہمیں تو رپورٹس نہیں دے رہے ہیں، جانے سے پہلے پلیٹیں پلیٹیں ہوتی تھیں جب سے وہاں پہنچے ہیں چمچے بہت ہیں پلیٹیں غائب ہو گئی ہیں۔
اسد عمر نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے شروع میں جب بات کی تھی تب وہ عدالتوں میں جاتے نہیں تھے، ثبوتوں کی وجہ سے ہمارے لوگ بڑے پر اعتماد تھے کہ شہباز شریف اگر عدالت میں جائیں گے تو فیصلہ شہباز شریف کے خلاف ہی آئے گا۔
،ان کا کہنا تھا کہ برطانوی صحافی نے خبر کسی بنیاد پر کی ہے، وہاں کی عدالتیں تیزی سے فیصلے کرتی ہیں جب کیس شروع ہو گا تو فیصلہ بھی آ جا ئے گا۔
جب اسد عمر سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ برطانوی عدالتوں سے بھی سزا دلوانا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں انصاف کا بول بالا ہو چاہے وہ پاکستان ہو یا پھر برطانیہ۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ فیصلوں کے اوپر ان کو بھی اعتراض ہوتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اگر فیصلہ ہمارے خلاف بھی آئے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ دلوادیا۔جمہوریت کے خلاف حملہ ہو گیا ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ فیصلہ اچھا نہیں تھامگران کے خلاف فیصلہ آئے توتب جمہوریت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے اسٹیبلشمنٹ بھی خراب ہو جاتی ہے، جج بھی بک جاتے ہیں۔
نیب کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نیب کی کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں۔ نیب ایک آزاداور خودمختار ادارہ ہے، یہ اس سے بہت بہتر انداز میں کام کر سکتا تھا۔ نیب کے اوپرحکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اورنہ ہی کوئی کنٹرول ہونا چاہئے مگر ہم نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
اسد عمر نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے اختیارت کم نہیں کیے گئے، اگر قانون اور شواہد کے مطابق کام کرنا ہے تو نیب کا قانون ابھی بھی بہت طاقتور ہے اچھی پراسیکیوشن ہو تو جس نے چوری کی ہے وہ بچ نہیں سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب قوانین میں تبدیلی کے بعد اپوزیشن کے اراکین اسمبلی ہی رہا ہوئے ہیں، نیب قوانین میں جو ترمیم کی گئی ہے وہ انصاف کا تقاضا تھا ہمیں معلوم تھا کہ بڑا شور ہو گا اور ہمارے مخالفین ہی رہا ہوں گے۔
اسد عمر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم صرف حکومت نہیں کر سکتی ہے اس کے لیے اپوزیشن کو بھی ساتھ بٹھانا ہو گا مگر یہ بڑا مشکل کام ہے کہ قانون میں ترمیم اپوزیشن کے ساتھ مل کر بھی کریں اور ایسی ترمیم بھی نہ ہو جس سے سارے ہی چور چھوٹ جائیں، یہ آسان کام نہیں ہے مگر اس کے لیے کوشش ضرور کی جائے گی۔
حکومتی وزراء کے اختلاف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ اسحاق ڈار اور شہباز شریف کا آپس میں میچ چل رہا ہے، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال، چوہدری نثار اور خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کی آپس میں نہیں بنتی، یہ باتیں کس سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، آج تک تحریک انصاف میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ اپنے ہی وزیر کے خلاف پریس کانفرنس کی گئی ہو۔ دنیا کی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہو گی جس میں دھڑے نہیں ہوں۔
ن لیگی ایم پی ایز کی ملاقات کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے، عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں اور ان سے ملاقات کرنے والے ایم پی ایز کا تعلق بھی پنجاب سے ہے ایم پی ایز اپنے حلقے کے کام کرانے آئے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ تتر بتر ہو رہی ہے، ان ایم پی ایز کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کل کو ان کی پارٹی کہاں کھڑی ہو گی؟ لوگ پریشان ہیں، عثمان بزدار خوش اخلاق آدمی ہے اس لیے بھی ایم پی ایز ملنا چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہو رہا مگر ن لیگ کے تتر بتر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ ن لیگ میں اس وقت ہیجان کی صورتحال ہے۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ ہماری جیسے جیسے کارکردگی بہتر ہوتی جائے گی تو ہمارا ووٹر، جسے پارٹی نظر نہیں آ رہی تھی، ہماری طرف واپس آنا شروع ہو جائے گا۔ اصل محنت اس بات پر کرنی ہے کہ پرفارمنس کیسے بہتر کرنی ہے لوگوں کی زندگی کیسے بہتر کرنی ہے؟
اسد عمر نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بہتری کی بہت گنجائش ہے مگر یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں کہ کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔اگر پرفارم کریں گے لوگوں کی زندگی بہتر کریں گے تو ووٹ بھی مل جائیں گے۔
ن لیگی رہنما احسن اقبال کی طرف سے کیے گئے اعتراض اور کرتار پور کوریڈور منصوبے کی منطوری کے سوال پر جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ منصوبہ کوئی چوری چھپے نہیں بنا۔ افتتاحی تقریب کے وقت سارے میڈیا کو وہاں پر لے کر گئے تھے۔ دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کو پاکستان کے ساتھ لا کر کھڑا کر دیاہے۔ سکھ کمیونٹی کے دل میں پاکستان کی محبت پیدا کر دی ہے۔
سی پیک پر بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ چین اور پاکستانی حکومت سمجھتی ہے کہ سی پیک پہلے سے گہرا بھی ہو گیا ہے اور اس کا دائرہ کار مزید وسیع بھی ہو گیا ہے۔ پہلے انفرا سڑکچر کے منصوبے چل رہے تھے اب زراعت اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اندر دو نئے معاہدے کے گئے ہیں، ساتھ ساتھ منصوبے بھی جاری ہیں
اسد عمر نے کہا کہ مہنگی بجلی اور گردشی قرضوں کا حل کرنا ہے، اگلے تیس دنوں میں پاور سیکٹر کے اوپر بڑے فیصلے دیکھنے میں نظر آئیں گے۔ اس وقت ہم آئی ایم ایف پروگرام کے اندر ہیں مگر اس کے باوجود بجلی اور گیس کی قیمت نہیں بڑھنے دی اور مزید کمی کی بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ آسان طریقہ ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتے چلیں جائیں مگر یہ اصل حل نہیں ہے۔سسٹم کے اندر جا کرآئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کر کے بہتری کرنی ہے اور جو دیگر پہلو ہیں وہ تمام فیصلے کر کے عوام پر بوجھ ڈالے بغیر گردشی قرض کے مسئلہ کو ختم کرنا ہے۔
ٹیکس کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک ماہ میں فیصلے بھی ہوئے ہیں اور ہم آگے بھی فیصلے کریں گے، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر ہماری کوئی سیاست نہیں، ہم یہی کرنے کے لیے ہی تو اقتدار میں آئے تھے، وزیر بننے کے لیے تو نہیں آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کمزورکے ساتھ کھڑی ہو گی، عمران خان سے بہتر کوئی آدمی نہیں کیونکہ دلیر شخص ہے جس نے خود کوئی پیسہ بنا نا نہیں۔ کچھ فیصلے آپ دیکھ چکے ہیں بڑے فیصلے آپ کو نظر آئیں گے۔
بیور کریسی کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ اگر وزراء کو اپنا کام معلوم ہے تو ان کے ساتھ بیورو کریٹ کام کرتا ہے اس کا ہماری یا کسی اور کی حکومت سے تعلق نہیں لیکن اگر آپ کو اپنا کام سمجھ نہیں آتا تو آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے بیورو کریٹ تنگ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر ایسا نہیں کہ بیورو کریسی نے تحریک انصاف کے ساتھ کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔