تحریر عقیل یوسفزئی
اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) یہ بات قابل تشویش ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی میں کمی واقع نہیں ہورہی حالانکہ وفاق اور تمام صوبوں میں حکومت سازی کے مراحل طے پاچکے ہیں اور مستقبل کا حکومتی منظر نامہ واضح ہوچکا ہے ۔ خیبرپختونخوا کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جس نوعیت کی ہلڑ بازی دیکھنے کو ملی اس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔
ایک مخصوص پارٹی نے اس کے باوجود پوری پراسیس کو یرغمال بنادیا کہ اس کے لیڈرز کے بقول وہ 8 فروری کے انتخابات کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ ان کا بیانیہ تضاد بیانی پر مشتمل ہے تاہم دوسری پارٹیاں حکومت میں آنے کے باوجود اس پارٹی کو کاؤنٹر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور اب بھی خوفزدہ نظر آرہی ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں چونکہ اس مخصوص پارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے اس لیے اس کو وہ منصفانہ الیکشن قرار دے رہے ہیں باقی ان کے بقول کہیں پر منصفانہ الیکشن نہیں ہوئے ہیں ۔
اسی پس منظر میں قومی اسمبلی میں کہا گیا کہ وہ اس حکومت کو چلنے نہیں دیں گے ۔ یہ ہو بہو وہی والی صورتحال ہے جو کہ 2013 کے الیکشن کے بعد پیدا ہوگئی تھی ۔ جاری کشیدگی کے دوران پی ڈی ایم بھی مولانا فضل الرحمان کی ناراضگی کے باعث عملاً قائم نہیں رہی اور ڈیموکریٹس بھی ایک دوسرے کے حامی یا اتحادی نہیں رہے ۔ اس تمام صورتحال ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے اپنے پلیٹ فارم سے ممتاز قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کو حکومتی اتحاد کے امیدوار جناب آصف صاحب زرداری کے خلاف اپنا صدارتی امیدوار نامزد کردیا ہے ۔
اس نامزدگی پر قوم پرست حلقے حیرت کا اظہار بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ عمران خان اور ان کے رہنما ماضی میں مولانا کی طرح جناب اچکزئی کا بھی مسلسل مذاق اڑاتے رہے ہیں اور دونوں پارٹیوں میں فوج کی مخالفت کے بغیر کوئی چیز مشترک نہیں ہے ۔ جناب اچکزئی نے پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں جو تقریر کی اس پر تحریک انصاف کے نومنتخب ممبرانِ اسمبلی نے جی کھول کر داد دی حالانکہ محمود خان اچکزئی کا اسٹیبلشمنٹ سے متعلق مذکورہ موقف پہلے دن سے اسی پیرائے میں چلا آرہا ہے تاہم اب کے بار ان کی تقریر تحریک انصاف کو کیوں بہت اچھی لگی اس کے پس منظر کا سب کو پتہ ہے ۔
جناب آصف علی زرداری کے خلاف صدارتی دوڑ میں جناب اچکزئی کی غیر متوقع انٹری نے ڈیموکریٹس کی ساکھ اور ہم آہنگی کو دھچکا لگادیا ہے اپر سے مسلم لیگ ن کے عطاء تارڑ جیسے لیڈرز کے طرزِ عمل نے فاصلے مزید بڑھادیے ہیں ۔ بعض سنجیدہ حلقے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے لئے سرفراز بگٹی کی نامزدگی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ اس تمام صورتحال کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دو بڑی پارٹیوں نے اصولی سیاست کے اپنے دعوؤں کے برعکس حکومتوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری ہر توجہ دیکر ایک بار پھر ثابت کیا کہ ان کے لیے اقتدار کا حصول ہی سب کچھ ہے ۔
تحریک انصاف نے ہفتے کے روز جس احتجاج کی کال دے رکھی تھی وہ زیادہ متاثر کن نہیں رہی جبکہ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے والی دیگر جماعتوں کی احتجاجی حکمت عملی تاحال بیانات سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دے رہی جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی بوجوہ تھکاوٹ اور مایوسی سے دوچار ہیں ایسے میں بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ کشیدگی اور تلخی کی بجائے تحریک انصاف سمیت حکومتوں میں شامل تمام پارٹیاں گورننس کے معاملات ٹھیک کرنے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔