ڈیجیٹل دنیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر متحدہ عرب امارات میں والدین اپنے خاندانوں کو پرائیویسی کی خلاف ورزیوں اور آن لائن خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
اماراتی والدہ حجر التینجی نے خلیج ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں بہت سوچ سمجھ کر ہی کسی کو اپنے گھر بلاتی ہوں، یہاں تک کہ قریبی رشتہ داروں کو بھی ہمیشہ نہیں بلایا جاتا۔ جب کوئی آپ کے گھر یا بچوں کی تصویر لیتا ہے تو آپ کے اختیار میں نہیں رہتا کہ وہ تصویر کہاں تک پہنچے گی۔”
حجر نے بتایا کہ کئی مواقع پر مہمانوں نے ان کے کچن یا باہر کے علاقے کی تصویر لینے کی درخواست کی، جس کی وہ اجازت دیتی ہیں، تاہم بیڈرومز یا نجی جگہوں کی تصاویر لینے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ان کا یہ احتیاط برتنے کا فیصلہ ذاتی تجربات اور ان واقعات کی روشنی میں ہے جہاں معصومیت سے شیئر کی گئی تصاویر بعد میں غلط استعمال ہوئیں یا بدنامی کا باعث بنیں۔
حال ہی میں عربی روزنامہ ’الخلیج‘ میں شائع رپورٹ میں وزارت انسانی وسائل و امارات کاری (Mohre) کے اسسٹنٹ انڈر سیکریٹری محمد صقر النعیمی نے گھریلو ملازمین اور خاندان کے افراد کو قیمتی اشیاء یا خاندان کے افراد کی تصاویر بنا کر انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے خطرات سے آگاہ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام افراد کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصاویر پوسٹ کرنی چاہییں تاکہ ایک محفوظ ڈیجیٹل ماحول قائم رکھا جا سکے جو پرائیویسی کو یقینی بنائے۔
حجر التینجی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ڈیجیٹل سرگرمیوں پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب ان کی بیٹی کی ایک دوست نے بار بار ویڈیو کالز کرنا اور آئی پیڈ پر تصاویر شیئر کرنا شروع کیں تو انہوں نے فوری طور پر دوسرے والدین سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، "ہم اکثر گھریلو ملازمین پر بچوں کی نگرانی کا انحصار کرتے ہیں، لیکن حقیقی آگاہی والدین سے ہی شروع ہونی چاہیے۔”
اماراتی والدہ مہرہ محمد نے بھی انہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بچوں کے پاس ذاتی فون یا سوشل میڈیا تک رسائی نہیں ہے۔ وہ صرف تین قریبی رشتہ داروں کے ساتھ محدود پیغام رسانی کے لیے آئی پیڈ استعمال کرتے ہیں اور آن لائن گیمز جیسے روبلوکس اور مائن کرافٹ پر سخت نگرانی رکھی جاتی ہے۔ مہرہ کہتی ہیں، "والدین کو خود بھی ڈیجیٹل دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ میں روزانہ ایک گھنٹہ سوشل میڈیا کی سرگرمیوں، اسکرین شاٹس، اور فالوورز کی جانچ میں صرف کرتی ہوں۔”
ایک اور اماراتی والدہ، ام راشد، بچوں کو آن لائن تصاویر شیئر کرنے کے طویل المدتی اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے کہانیوں اور اینی میٹڈ ویڈیوز کا سہارا لیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والدین، گھریلو ملازمین اور بچوں کے لیے مقامی زبانوں میں آسان رہنمائی، مواد پر نظر رکھنے والے جدید ایپس، اور الرٹس سسٹم جیسے وسائل کی اشد ضرورت ہے۔





