تحریر: عامر گمریانی
ہم اس ملک کی اشرافیہ پر بہت تنقید کرتے ہیں، یقیناَ ہماری بدحالی میں ملک کی اشرافیہ کا بڑا کردار ہے لیکن ہم مڈل کلاس نے بھی اپنی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
میں نے پرسوں اور کل پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعلیم کُش فیصلوں کے متعلق لکھا، ثبوت کے طور پر پچھلے دو سالوں کے نتائج کا تقابل پیش کیا۔ آج میں چند تصویریں شریک کر رہا ہوں۔ تصویریں کیا ہیں، ہماری تباہی اور بربادی کی داستان ہیں۔ یہ سرکاری سکولوں کے نتائج ہیں۔

آپ کے علم میں ہونا چاہیئے کہ اس وقت ہمارے سرکاری اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں دو لاکھ تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس سال بھرتی ہونے والے اساتذہ کی تنخواہیں چالیس سے ساٹھ ہزار کے قریب ہیں۔
ایسے اساتذہ بھی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ جن کی تنخواہ بڑھتے بڑھتے دو لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اوسط اگر نکالیں تو ایک استاد کی تنخواہ ایک لاکھ روپے تک ہوگی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پچیس سے پچاس لاکھ روپے انہیں یک مشت ملتے ہیں۔ ماہانہ پینشن پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ ساری عمر ملتی ہے۔
اربوں کھربوں روپے کے یہ تمام اخراجات اس ملک کے غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا ہوتے ہیں۔ اس کے بدلے ان سے ایک تقاضہ ہے کہ اس ملک کے بچوں کو تعلیم دیں۔ یہ لوگ اپنا فرض کہاں تک ادا کرتے ہیں، تصویروں سے اندازہ لگا لیں۔
یہ تقریباً تمام سکولوں کا حال ہے۔ اکا دکا کوئی سکول ہوگا جہاں بچوں نے حوصلہ افزا نتائج دئے ہوں گے۔ یہ نتائج اس نااہلی اور غفلت کا نتیجہ ہے جس نے ہم سب کو اپنے شکنجے میں لیا ہے۔
نوٹ: تصویروں میں آپ کو دو کالم نظر آئیں گے۔ پہلے کالم میں کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات کے حاصل کردہ مارکس ہیں جبکہ دوسرے کالم میں ناکام ہونے والے بچوں کے ناکام پرچوں کے مخفف درج ہیں۔ خود ہی دیکھ لیں کہ پلڑا کس کا بھاری ہے۔