تحریر : رانا اشرف
آئی جی اسلام آباد نے اسلام آباد کی دو خواتین کو ایک جیسے کیس میں مختلف انصاف کیوں دیا، شہریوں نے سوالات اٹھا دیے
ٹک ٹاکر سامعہ حجاب ایک ویڈیو بناتی ہے کہ مجھے ایک لڑکا حسن زاہد قتل اور اغوا کی دھمکیاں دے رہا ہے تو آئی اسلام آباد فورا پولیس کو حرکت میں لاتے ہیں۔
لڑکی کے گھر کے باہر سیکیورٹی کھڑی کرتے ہیں۔ مقدمہ درج کرواتے ہیں۔ ڈی آئی جی سے لیکر ایس ایچ او تک کو لڑکے کو فورا گرفتار کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں۔
تمام افسران لڑکے کو گرفتار کرنے لیے متحرک ہو جاتے ہیں ۔ملزم مقامی عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت کرواتا ہے تو پولیس ایک اور ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کر لیتی ہے۔
حوالات میں اس لڑکے پر سخت پہرہ لگایا جاتا ہے ایس پی صدر ایک تھانیدار کو حوالات کے باہر بٹھا کر حکم دیتا ہے کہ اس سے کسی کی ملاقات بھی نہیں ہو گی۔
ملزم کے والدین اس حد تک سہم جاتے ہیں کہ پتہ نہیں ہمارے بیٹے نے کونسا ایسا جرم کر دیا ہے کہ آئی جی سے لیکر ڈی ایس پی تک رات دن اس ایک کیس پر لگے ہوئے ہیں۔
ٹک ٹاکر سامعہ کے ملزم کی گرفتاری اور سبق پولیس ایسے سکھا رہی ہے کہ اسلام آباد کی ہر لڑکی کی آواز پر آئی جی ایسا ایکشن لیتے ہیں۔
دوسری طرف اس کیس سے بڑا کیس چند ماہ قبل ہوتا ہے نیشنل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی اپنی ماتحت ڈپٹی ڈائریکٹر عائشہ پر تشدد کرتا ہے۔
لڑکی کے ساتھ شادی کا جھانسہ دے کر اس سے فراڈ کرتا ہے۔ تین سال بعد جب عائشہ شادی کا وعدہ پورا کرنے کا کہتی ہے تو وائس چانسلر تشدد کر کے اس کا منہ ناک اور آنکھ توڑ دیتا ہے اور قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔
عائشہ پمز سے میڈیکل کروا کر مقدمہ درج کرواتی ہے تو پولیس وائس چانسلر کو گرفتار کرنے سے گھبرا جاتی ہے ۔عائشہ آئی جی سے لیکر ایس ایچ او تک منتیں کرتی ہے کہ اس وائس چانسلر کو مقدمے میں گرفتار کرو لیکن پولیس نہ گرفتار کرتی ہے اور نہ لڑکی سیکورٹی دیتی ہے بلکہ وائس چانسلر کو گرفتاری سے بچانے کے لیے متحرک ہو جاتی ہے۔
ڈی سی آفس میڈیکل کو دوبارہ کرنے کے لیے بوڈر بنانے کا آڈر کرتا ہے اور پمز کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر دوبارہ بورڈ بنا دیتا ہے ۔جس دن لڑکی کی عدالت میں پیشی ہوتی ہے اس دن میڈیکل بورڈ بلاتا ہے تاکہ لڑکی حاضر نہ ہو سکے تو فیصلہ وائس چانسلر کے حق میں کیا جائے۔
عائشہ کی دہائی آج تک کسی نے نہیں سنی اور وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی کو گرفتار نہ کیا جا سکا ۔
دوسری طرف آئی جی اسلام آباد کی ٹک ٹاکر کو مبینہ انصاف دینے میں پھرتی سمجھ سے باہر ہے ۔ٹک ٹاکر کا ملزم حسن زاہد 7 دن سے جسمانی ریمانڈ پر ہے ۔
آئی جی اسلام آباد کا فوری انصاف عائشہ کے لیے کیوں نہیں جس کا مقدمہ بھی درج تھا۔ وائس چانسلر کے گھر پولیس نے چھاپے کیوں نہ مارے۔ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی آپریشن وائس چانسلر کو کیوں گرفتار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگر وائس چانسلر ایک مقدمے میں ضمانت پر تھا تو نیا مقدمہ کیوں نہیں درج کر کے ٹک ٹاکر سامعہ کے ملزم کی طرح گرفتار کیا گیا ۔
ذرائع کے مطابق ٹک ٹاکر کو اسلام آباد پولیس ڈیجیٹل انصاف دینے کے لیے ملزم پر صلح اور پیسوں کی شکل میں جرمانہ ادا کرنے کے لیے پورا دباؤ ڈال رہی ہے۔ آنے والے دنوں جلد ہی ملزم حسن زاہد کا معافی نامہ اور جرمانہ ادا کرنے کی خبر سامنے ا جائے گی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سامعہ اور عائشہ کو انصاف دینے میں پولیس کا دوہرا معیار کیوں ؟ فرق صرف یہ ہے کہ عائشہ ایک سرکاری ملازم تھی جبکہ دوسری طرف مبینہ الزامات لگانے والی ٹک ٹاکر سامعہ حجاب تھی ۔
کیا اسلام آباد پولیس تمام خواتین کو اتنا تیز رفتار انصاف دیتی ہے کہ ملزم اگر ایک ایف آئی آر میں ضمانت میں تو دوسرا مقدمہ کر کے عورتوں کو انصاف دے۔
سامعہ حجاب کے کیس میں پولیس کی پھرتی پر کئی سوالات اٹھ گئے ہیں