تحریر : سمیر اسلیم
پاکستانی عوام کو ایک طرف خوفناک سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ان کی حساس اور ذاتی معلومات گوگل پر چند روپوں کے عوض برائے فروخت ہے۔
میڈیا میں خبر بریک ہوئی کہ اہم شخصیات سمیت شہریوں کا ڈیٹا لیک ہو گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر موبائل سم مالکان کے ایڈریس، کال ریکارڈ، شناختی کارڈ کی نقول، بیرون ملک سفر کی تفصیلات سمیت ذاتی معلومات کی فروخت جاری ہے۔
لیک ہونے والے ڈیٹا میں وفاقی وزراء، اہم حکومتی شخصیات اور اعلیٰ سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔ یہ سب ہو جانے کے بعد وزیر داخلہ بھی ایکشن میں آئے ہیں اور تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
اداروں کی لاپرواہی کا خمیازہ تو عوام وقتاً فوقتاً بھگتی رہتی ہے بات بس اتنی سی ہے کہ ہم واقعہ ہونے کے کچھ عرصہ بعد بھول جاتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا اور نہ آخری بار ہوگا کہ پاکستانیوں کا ڈیٹا لیک ہوا ہے۔
شاید کسی کو یاد ہو کہ 2019 سے 2023 کے دوران نادرا سے 2.7 ملین شہریوں کا ڈیٹا چوری ہوا۔ شہریوں کی ذاتی معلومات کی تفصیلات ارجنٹینا اور رومانیہ میں فروخت ہوتی رہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق ڈیٹا ابھی بھی ڈارک ویب پر موجود ہے۔
بس کہانی میں نئی بات یہ ہے کہ اس بار وزراء کی اپنی معلومات گوگل پر چند ہزار روپے میں برائے فروخت ہیں۔ ملک کے طاقتور وزیر داخلہ محسن نقوی بھی ان لاکھوں متاثرین میں شامل ہیں جن کی حساس معلومات لیک ہو چکی ہیں۔ جنھوں نے ہماری حفاظت کرنی تھی خیر سے وہ خود بھی غیر محفوظ ہیں۔
چند روز قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات کئے گئے ہیں کہ چین کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک ہے جو اپنی عوام کی بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل سرویلینس کر رہا ہے۔ پاکستان جیسے معاشی گراوٹ کا شکار ملک کے فیصلہ ساز غیر قانونی طور پر غیر ملکی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک بہت بڑا نگرانی اور سنسر شپ کا نظام چلا رہے ہیں۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کئے گئے انکشافات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس بڑے پیمانے پر شہریوں کی رازداری ، بولنے کی آزادی اوربنیادی حقوق کو منظم طریقے سے مجروح کیا جا رہا ہے۔ سیاسی ایلیٹ نے صرف اپنے شہریوں کی آواز دبانے کے لئے کروڑوں ڈالرز جرمنی، فرانس، متحدہ عرب امارات، چین، کینیڈا اور امریکہ سے ٹیکنالوجی کو درآمد کرنے پر اڑا دیئے۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں دو مربوط نگرانی کے نیٹ ورک لاءفل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم اور چائینہ ساختہ فائر وال کے ذریعے لاکھوں پاکستانیوں کے فون کالز، ٹیکسٹ میسجز اور لوکیشن کو بغیر کسی مناسب نگرانی کے ٹیپ کر رہی ہیں، جو نہ صرف آئین کے آرٹیکل 14کے تحت حقِ پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین جیسے کہ آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل 17 کی بھی خلاف ورزی یے۔ مگر وطن عزیز میں انسان کی تذلیل کوئی بڑی بات نہیں۔
لاءفل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم بیک وقت چالیس لاکھ سے زائد لوگوں کی نگرانی کرتا ہے جبکہ چائنہ ساختہ ویب مانیٹرنگ سسٹم 2.0ایک ہی وقت میں 20 لاکھ انٹرنیٹ سیشنز کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق حکومت پاکستان اس وقت تقریباً 6 لاکھ 50 ہزار ویب لنکس کو بلاک کر رہی ہے جس میں یوٹیوب، فیس بک اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز شامل ہیں۔
پاکستان نے اپنے تمام تر معاشی بحرانوں کے باوجود ان مقاصد کیلئے 2018 میں 18.5 ملین ڈالرز کینیڈین فرم Sandvine کو ادا کئے، معاہدہ 2017 میں ہوا۔ 2012 میں اسرائیلی فون ہیکنگ ٹیکنالوجی خریدی گئی۔ 2012 سے لیکر اب تک اشرافیہ نے صرف شہریوں پر نظر رکھنے کے لئے اربوں روپے پھونک دئیے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ طاقتور لوگوں کو وزراء سمیت اپنی 25 کروڑ عوام کی حب الوطنی پر اعتماد نہیں۔انھیں ہر طرف جرائم پیشہ، غدار، وطن فروش نظر آتے ہیں جن کی ہر لمحہ اور ہر طرح کی نگرانی وطن عزیز کی سلامتی کیلئےضروری ہے۔
اب وزیر داخلہ سمیت سم ہولڈرز کا ڈیٹا مبینہ طور پر گوگل پر فروخت ہو رہا ہے۔پاکستانیوں کی پرائیویسی داو پر لگی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمارا نظام انصاف بھی وسیع پیمانے پر کی جانے والی اس غیرقانونی نگرانی کے خلاف کوئی تحفظ فراہم نہیں کر پا رہا۔
ایمنسٹی کی رپورٹ کا اگر سادہ الفاظ میں پوسٹ مارٹم کیا جائے تو دراصل اس میں صاف صاف یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کا ایجنسیوں اور اداروں کے سامنے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ پرائیویسی نام کی کوئی چیز پاکستان میں وجود نہیں رکھتی۔ ججز، صحافی ، سیاستدان اور عام شہری سب خفیہ اداروں کے ریڈار پر ہیں۔ججز بھی خاموش ہیں اور مراعات انجوائے کر رہے ہیں۔
یہاں جسٹس بابر ستار کا ذکر کرتی چلوں کہ انہوں نے بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ فون ٹیبپنگ کا کوئی قانون نہیں، جو ہو رہا ہے سب غیر قانونی ہے۔ جسٹس بابر ستار نے ٹیلی کام کمپنیوں کی فون ٹیپنگ میں معاونت کو بھی غیر قانونی کہا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران معلوم پڑا کہ ٹیلی کام کمپنیوں سے مانیٹرنگ سسٹم زبردستی انسٹال کروائے گئے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے بھی بہت اہم ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق تو فون ٹیپنگ کی اجازت صرف جج ہی دے سکتا ہے۔ لیکن اب جو حالات ہیں اس میں جج صاحبان کو تو خود بھی معلوم نہیں کہ ان کا ذاتی ڈیٹا کہاں کہاں پہنچ رہا یے۔ وہ بھلا ایک عام شہری کو کیسے تحفظ فراہم کریں جو موجودہ نظام میں اپنا ہی تحفظ نہیں کر پا رہے۔
شہریوں کی جاسوسی کا جال بچھ چکا ہے،صد افسوس کہ سیاستدان بھی دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر حکمران جب اقتدار کے نشے میں ہوتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ آج وہ جس کام کو جائز قرار دے رہے ہیں ، وہی کل کو ان کے اپنے گلے بھی پڑ سکتا ہے جیسا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔
عمران خان جب وزیراعظم تھے تو وہ بھی قوم کو فون ٹیپنگ کے فضائل بتاتے رہے اور خفیہ ایجنسیوں کے کردار کی وکالت کرتے رہے۔ اپوزیشن میں آ کر خان صاحب کو یاد آ یا کہ خفیہ ایجنسیاں اپنی مرضی سے فون ٹیپنگ نہیں کر سکتیں۔
اس کا قانونی طریقہ کار ہے کہ پہلے وزارت داخلہ کے پاس جائیں اور پھر وزارت داخلہ عدالت سے رجوع کرکے اجازت حاصل کرے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عوام آزادی رائے کھو بیٹھے ہیں۔ جائز تنقید بھی طاقتور حلقوں کو منظور نہیں۔ بیروزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنا غم اور غصہ پھر اسی طرح سے نکالتے ہیں جیسے پہلے سری لنکا، پھر بنگلہ دیش اور اب نیپال میں ہوا ہے۔ ریاست کا عوام کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ بھیانک ہی نکلتا ہے۔
پاکستانی آج تک ایک قوم نہ بن سکی اس لئے احتجاجی تحریکیں سوشل میڈیا کی زینت تو بنی مگر عوامی تحریک کی شکل اختیار نہ کر سکیں۔ تاہم پاکستان میں بھی حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ۔غربت ،بےروزگاری اور معاشی مسائل کا اک انبار ہے جس نے عوام کو جکڑ رکھا ہے۔ اک لاوا ہے جو اندر ہی اندر پک چکا ہے کوئی لمحہ ہے کہ یہ پھٹ جائے گا۔
ایسے میں طاقتور حلقے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا ادراک کریں، خطرہ بھانپ لیں۔ ادارے تو شہریوں کے تحفظ کے ضامن ہوتے ہیں۔ پرانی روش بدلنا ہو گی۔ بے جا سختیوں اور تذلیل سے نوجوانوں کا جینا دوبھر نہ کریں۔ایسا نہ ہو کہ یہاں بھی لاوا پھٹے اور سب کچھ راکھ ہو جائے۔