تحریر :سمیرا سلیم
ایٹمی طاقت پاکستان اور تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کے درمیان گزشتہ ہفتے ایک سرپرائزنگ اور بڑا دفاعی معاہدہ ہوا ہے۔ اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان 1960 کی دہائی سے جاری مشترکہ ملٹری تعلقات کو مزید تقویت دی ہے۔
سعودی عرب کے امریکا کے ساتھ دفاعی تعلقات پاکستان سے بھی پرانے ہیں۔ 1951 میں سعودی عرب اور امریکا کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہوا تھا جس میں سعودی عرب کو امریکی ہتھیاروں سمیت فوجی تربیت دینا شامل تھا۔تاہم پاکستان کے ساتھ حالیہ معاہدہ اس حوالے سے اہمیت رکھتا ہے اس میں کسی ایک ملک پر جارحیت دونوں ممالک پر تصور ہوگی۔
یہ انتہائی طاقتور اور اہم پیغام ہے جو خطے سمیت دنیا بھر کو دیا گیا ہے۔ معاہدے کے بارے یہ قیاس آرائیاں بھی ہیں کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیش نظر یہ معاہدہ راتوں رات ہو گیا تاہم اس میں حقیقت دکھائی نہیں دیتی ۔
تاریخی طور پر دیکھیں تو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کبھی بھی براہ راست جنگ نہیں ہوئی۔ عرب اسرائیل جنگیں 1948، 1956، 1967 اور 1973 میں ہوئیں جن میں سعودی بالواسطہ طور پر شریک تھا۔ پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ بظاہر اسرائیل کے خلاف نہیں ہے تاہم مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے حالات میں اس امر کو خارج الامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سعودی اعلیٰ عہدے دار نے بھی واضح کیا ہے کہ معاہدہ برسوں کی بات چیت کا نتیجہ ہے اور یہ مخصوص ممالک یا مخصوص واقعات کا ردعمل نہیں ہے تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قطر پر اسرائیلی حملے نے معاہدے تک پہنچنے کے عمل کو مہمیز کیا ہے ۔
یہ معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے 8 روز بعد ہوا۔ امریکا جو ان ممالک کے دفاع کا ضامن تھا اسرائیل کو قطر پر حملے سے نہ روک سکا۔ قطر میں مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی العدید ائیر بیس موجود ہے جو کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے۔
یہاں 10 ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔ امریکی افواج اور جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم کی موجودگی میں اسرائیلی حملے نے امریکہ پر عرب ممالک کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔اسرائیل کے حملے نے عرب ممالک کو اس بات کا شدت سے احساس دلایا ہے کہ اپنی حفاظت کیلئے صرف امریکہ پر انحصار کرنا صحیح حکمت عملی نہیں۔
یہ واضح ہے کہ اگر ٹرمپ کی آشیرباد نہ ہوتی تو اسرائیل کبھی بھی حملے کی جرآت نہ کرتا۔ایسے میں تازہ ترین معاہدے کو قطر پر اسرائیلی حملوں کے پس منظر میں دیکھا اور پرکھے جانا فطری ہے۔ خلیجی ریاستیں اپنی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عنقریب باہمی دفاعی شراکت داری میں قطر اور یو اے ای بھی شامل ہو گا ۔حالانکہ اس سے قبل رواں برس مئی میں سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا اربوں ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا لیکن اس معاہدے کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے سعودی عرب کو پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ پر مجبور کر دیا۔
مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال میں نیوکلیئر پاکستان کی اہمیت بڑھنے لگی ہے۔سعودی عرب کے تحفظات کا دائرہ کار صرف اسرائیل کی بے لگام جارحیت کے گرد نہیں گھومتا، بلکہ وہ یمن کے حوثیوں کو زیادہ بڑے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ یمن کے حوثی مسلکی طور پر ایران کے قریب ہیں اور ایران پر ان کی حمایت کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
اگرچہ ایران سے سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری تو آئی ہے مگر یمن کی طرف سے سعودی عرب خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ اس تناظر میں ایک سوال بہت اہم ہے کہ، سعودی یمن تنازعہ میں پاکستان کی پوزیشن کیا ہو گی؟ ماضی میں سعودی دباؤ کے باوجود پاکستان نے یمن جنگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ 2015 کی بات ہے اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے اور انھوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دباؤ پر سعودی حکومت کی ناراضگی مول لیتے ہوئے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا گیا تھا اور اس کیلئے پارلیمینٹ کا سہارا لیا گیا۔ اس بار اتنا بڑا معاہدہ ہوگیا اور پارلیمینٹ کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوئی۔ پاکستان اس معاہدہ کو نئی دہلی کے ساتھ دیرینہ دشمنی کے تناظر میں اہم سمجھتا ہے۔
بھارت کے سعودی عرب کے ساتھ بڑے قریبی دفاعی و اقتصادی تعلقات ہیں جسے وہ مزید فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس معاہدے میں بھارت کے لئے بھی یقینا واضح پیغام ہے کہ اگر پاکستان پر حملہ کیا تو سعودی عرب بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی اور معاشی تعلقات کو ختم کر سکتا ہے۔
اس وقت یہ بحث بھی جاری ہے کہ پاکستان کو اس معاہدے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ سعودی عرب پاکستان کو کتنے ارب ڈالرز دے گا اور اس ہنی مون پیریڈ سے عام عوام بھی مستفید ہو گی یا صرف اسٹیبلشمنٹ سب کچھ سمیٹے گی۔ اس سازگار فضا میں اگر اک فوری ریلیف عوام کیلئے لیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ حکمران انسانی بنیادوں پر سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہزاروں پاکستانیوں کی رہائی کو ممکن بنائیں ۔
یہ کام 2019 میں سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی کیا تھا جب پاکستان کے دورے پر آئے سعودی ولی عہد سے انھوں نے سعودی جیلوں میں قید 3 ہزار پاکستانی مزدوروں کی رہائی کی درخواست کی تھی۔
جس پر سعودی ولی عہد نے دورہ پاکستان کے دوران ہی 21 سو قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا اور خود کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر بھی کہا تھا۔ سعودی عرب میں اس وقت 10 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اس بہار کے موسم میں کیوں نہ حکومت پاکستان ان بے یارو مددگار قیدیوں کی رہائی کا پروانہ ہی لے لے۔





