دی گارڈین کے مطابق پیر کی دوپہر انڈونیشیا کے مشرقی جاوا میں واقع ایک بورڈنگ اسکول میں جب نماز کے لیے اذان کی آواز گونجی تو سجدے میں جھکے ہوئے 100 سے زائد طلبہ کے نیچے اچانک فرش بیٹھ گیا۔
ال خوزینی اسکول کی چار منزلہ عمارت اتنی تیزی سے زمین بوس ہوئی کہ ایک عہدیدار نے اسے "پین کیک” جیسی آفت قرار دیا۔
تین دن گزرنے کے بعد پانچ افراد کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 59 طلبہ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ امدادی ٹیموں کو زندہ بچ جانے والوں کے امکانات پر بڑھتی ہوئی تشویش ہے، جبکہ تعمیراتی معیار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
بدھ کے روز اسکول کے باہر غمزدہ والدین کے گروپ قالینوں پر ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے۔ کچھ موبائل فونز پر نظریں جمائے ہوئے تھے، کچھ امدادی ٹیم کی جانب سے لگائے گئے بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر لاپتہ طلبہ کے نام درج تھے۔ سبھی جواب مانگ رہے تھے۔
"اس اسلامی بورڈنگ اسکول کی انتظامیہ نے معذرت تک نہیں کی بلکہ دوسروں کو الزام دینے کی کوشش کی،” جینتی منڈاساری نے کہا جو اپنے 16 سالہ بیٹے محمد موفی الفیان کی خبر کی منتظر تھیں۔
جینتی نے بتایا کہ اسکول کے گرنے سے چند گھنٹے پہلے ہی ان کی بیٹے سے بات ہوئی تھی۔ انہوں نے آخری پیغامات بھی دکھائے جن میں بیٹے نے اپنی طبیعت اور جیب خرچ بڑھانے کی درخواست کی تھی۔
انہوں نے کہا، "میں نے اسکول کی کمزور عمارت پر اعتراض بھی کیا تھا لیکن انتظامیہ نے کبھی کوئی جواب نہیں دیا۔”
جینتی کی بہن حمیدہ سوتادجی نے کہا، "پیر سے ہم نے کچھ کھایا نہیں کیونکہ ہم اپنے بیٹے محمد موفی الفیان کی قسمت کے بارے میں فکر مند ہیں۔”
اسکول کے گرنے کی تحقیقات جاری ہیں، لیکن ماہرین کے مطابق ابتدائی شواہد ناقص تعمیر کی نشاندہی کرتے ہیں۔
امدادی اہلکار ایمی فریزر نے کہا، "اگر تعمیر اچھی ہوتی تو عمارت گرنے پر ٹوٹتی، یہ اس طرح مڑتی اور لچکدار نہ لگتی۔ یہ سب بنیاد کی ناکامی ہے۔”
دوسرے افراد نے سوال اٹھایا کہ جب اوپر تیسری اور چوتھی منزل پر تعمیراتی کام جاری تھا تو طلبہ کو پہلی منزل پر نماز پڑھنے کی اجازت کیوں دی گئی؟
انڈونیشیا کی ڈیزاسٹر ایجنسی کے ترجمان عبدالمہاری نے کہا کہ اسکول اس وقت گرا جب بنیاد کے ستون چوتھی منزل کے نئے تعمیراتی بوجھ کو سہنے میں ناکام ہوگئے۔
انہوں نے سخت حفاظتی معیارات کا مطالبہ کیا اور عوام و عمارت مالکان سے اپیل کی کہ تعمیراتی عمل پر زیادہ توجہ دیں تاکہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
اسکول کے سربراہ KH اگس سلام مجیب نے پیر کو کہا کہ دس ماہ کے تعمیراتی منصوبے کے آخری مراحل چل رہے تھے جب اسکول گر گیا، تاہم انہوں نے ناقص تعمیر کے دعووں پر کوئی جواب نہیں دیا۔
بدھ کو امدادی کارکنوں نے ملبے سے سات افراد کو نکالا، جن میں سے پانچ زندہ تھے۔
بدھ کی سہ پہر محمد فیصل دعا کے دانے گھماتے اپنے 16 سالہ بیٹے ارہام کی خبر کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی انہیں حادثے کی اطلاع ملی، وہ فوراً اسکول پہنچ گئے لیکن ابھی تک کوئی خبر نہیں ملی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں 30 ہزار سے زیادہ اسلامی بورڈنگ اسکول (پیسنٹرن) موجود ہیں۔
انڈونیشیا کی نیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ محمد شفیعی نے کہا کہ ریسکیو آپریشن جاری ہے لیکن یہ پیچیدہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کھدائی خود خطرناک ہے کیونکہ اس سے زمین کھسکنے کا خدشہ ہے، اور کوئی بھی سرنگ صرف 60 سینٹی میٹر چوڑی ہی بنائی جا سکتی ہے کیونکہ ڈھانچے میں کنکریٹ کے ستون موجود ہیں۔
انہوں نے کہا، "اگر ایک جگہ ہلچل ہوئی تو یہ دوسری جگہ کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اس لیے متاثرین تک پہنچنے کے لیے ہمیں زیرزمین سرنگ کھودنی پڑے گی۔”
بچ جانے والوں اور جاں بحق ہونے والوں کو تلاش کرنے کے لیے تھرمل سینسنگ ڈرون سمیت ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے کیونکہ 72 گھنٹوں کی "گولڈن پیریڈ” یعنی بہترین بچاؤ کے امکانات کا وقت ختم ہونے کو ہے۔