اس سال ملک کو تباہ کن سیلاب نے متاثر کیا ہے جس سے اب تک اندازاً تین ہزار 856 ارب روپے کے نقصانات ہوئے ہیں، جب کہ معیشت کو مزید 740 ارب روپے کے ممکنہ نقصانات کا سامنا ہے۔ یہ انکشاف جمعرات کو وزارتِ منصوبہ بندی کے حکام نے کیا۔
یہ بریفنگ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے اجلاس میں دی گئی جس کی صدارت رکن اسمبلی مرزا اختیـار بیگ نے وزارتِ اقتصادی امور میں کی۔
منصوبہ بندی ڈویژن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبوں سے جمع شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر ملک بھر میں سیلاب سے ابتدائی نقصانات کا تخمینہ 3ہزار 856 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
ممکنہ معاشی نقصانات 740 ارب روپے کے حساب سے لگائے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کا ڈیٹا موصول ہو چکا ہے، جب کہ پنجاب اور سندھ سے مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب میں ہی 630 ارب روپے کے نقصانات رپورٹ ہوئے ہیں۔
پنجاب کے نقصانات کے علاوہ، ملک بھر میں 12ہزار 569مکانات تباہ اور 248 پل متاثر ہوئے۔ سیلاب سے تقریباً 65 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سیلاب کے دوران لوگوں کو بچانے کے لیے پانچ ہزار 768 ریسکیو آپریشن کیے گئے۔ متاثرینِ سیلاب کو اب تک بیس ہزار ٹن امدادی سامان فراہم کیا جا چکا ہے۔
وفاقی حکومت نے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 2 ارب روپے کی معاوضہ ادائیگی کی ہے، جب کہ صوبائی حکومتوں نے بھی متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد دی ہے۔
کمیٹی نے سیلابی نقصانات سے متعلق فنڈنگ اور منصوبوں پر بھی تفصیلی غور کیا۔ اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) کے حکام نے بریفنگ دی کہ حکومت نے سیلاب کے بعد ابھی تک کسی ترقیاتی شراکت دار سے معاونت نہیں مانگی۔
منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ نقصانات کا جائزہ لیا جا سکے، اور اب تک کمیٹی کے چار اجلاس ہو چکے ہیں۔
تکنیکی مہارت کے لیے، حکومت نے چار بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں سے رجوع کیا ہے، جن میں عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) شامل ہیں، تاکہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر امداد کے لیے اپیل کی جا سکے۔
اجلاس کے دوران شرکاء نے لیاری ایلیویٹڈ فریٹ کوریڈور کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل کرنے پر بھی غور کیا۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے حکام نے وضاحت کی کہ کراچی کی ٹریفک شہر سے ایم-9 موٹروے کی طرف جاتی ہے اور لیاری کوریڈور منصوبہ شہر میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کی بھیڑ کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ نئے ایم-10 موٹروے منصوبے کی فیزیبلٹی اسٹڈی دسمبر تک مکمل ہو جائے گی اور اس کی تعمیر کے لیے سعودی فنڈنگ حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مزید برآں، اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ڈی بی) نے ایم-6 منصوبے کے لیے 470 ملین ڈالر کا قرض منظور کر لیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین اختیـار بیگ نے کراچی میں بھاری ٹریفک پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ آج بھی رات 11 بجے سے پہلے ہیوی گاڑیاں شہر میں داخل ہو جاتی ہیں اور ڈمپر جان لیوا حادثات کا سبب بنتے ہیں۔
این ایچ اے حکام نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ لیاری کوریڈور شہر میں حادثات کم کرنے میں مدد دے گا، لیکن یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے تحت ممکن نہیں ہے۔ اگر اسے پی ایس ڈی پی میں شامل کیا گیا تو آئندہ بجٹ سائیکل میں اس پر کام شروع کیا جا سکتا ہے۔