تحریر : سمیرا سلیم
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے اکتوبر 2023 سے جاری بمباری کے دوران عرب ممالک کی خاموشی کا راز معتبر امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ نے حالیہ امن معاہدے کے بعد افشاں کر دیا۔
امریکی اخبار نے دستاویزات کی روشنی میں غزہ میں ہولناک قتل عام پر اہم عرب ممالک کے کردار کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عرب ریاستوں نے غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے ساتھ اپنے تعلقات اور تعاون کو بڑھایا ہے۔ غزہ لہو لہان رہا مگر اس دوران چھ اہم عرب ممالک بشمول ، قطر ، مصر ، یواے ای، بحرین اور اردن نے اسرائیلی فوج کے ساتھ ملٹری روابط کو نہ صرف بڑھایا، بلکہ علاقائی اور ایران سے خطرات کے باعث امریکی سینٹرل کمانڈ کی مدد سے عرب و اسرائیلی فوجی حکام زیر زمین سرنگوں میں تربیت کیلئے اکھٹے بھی ہوتے رہے۔
یہ اہم عرب ممالک عالمی برادری کو دکھانے اور اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے غزہ میں نسل کشی کی بظاہر مذمت کرتے رہے، مگر درحقیقت یہ ممالک بڑی خاموشی سے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کو پروان چڑھا رہے تھے۔
غیر ملکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ جو دستاویزات ان کے ہاتھ لگی ہیں اس کے مطابق مئی 2024 میں اسرائیلی اور عرب فوجی حکام نے قطر میں امریکی فوجی مرکز العدید ایئر بیس پر ملاقات کی۔مذکورہ ملاقات سے دو دن قبل لکھی جانے والی ایک دستاویز میں ملاقات کی منصوبہ بندی بارے بتایا گیا ہے جس کے مطابق اسرائیلی وفد نے قطر میں موجود امریکی اڈے براہ راست اترنا تھا تاکہ قطری عوام کو اس کی بھنک نہ پڑ سکے۔
گزشتہ تین سالوں میں امریکہ کی سہولت کاری کی بدولت اسرائیل اور چھ عرب ممالک کے اعلیٰ فوجی حکام بحرین، مصر، اردن اور قطر میں ملاقاتوں کے لئے اکھٹے ہوئے۔ تاہم گذشتہ ماہ قطر پر اسرائیل کے فضائی حملے کے بعد وقتی طور پر فوجی تعلقات میں کھٹائی ضرور پیدا ہوئی، کیونکہ قطر ان ممالک میں سے ایک ہے جو بڑی خاموشی سے اسرائیل کے ساتھ فوجی تعلقات بڑھا رہا تھا۔ اسرائیلی حملے سے قطر کے تعلقات میں تناؤ آیا مگر چونکہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات میں قطر کا کلیدی کردار رہا ہے ، لہٰذا نیتھن یاہو کی معافی اور ٹرمپ کی مداخلت کے بعد معاملے پر مٹی ڈال دی گئی۔
اخبار لکھتا ہے کہ عرب اسرائیل سکیورٹی تعاون میں شامل عرب ممالک نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ کے خاتمے کے 20 نکاتی منصوبے کی حمایت کی جس کے بعد غزہ جنگ بندی کی راہ ہموار ہوئی۔اب اسرائیل اور حماس نے امن فریم ورک کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا ہے،جس کے نتیجے میں حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا تو شروع ہو گیا ہے۔ مگر جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے لئے امریکا کا اپنے 200 فوجی اسرائیل بھیجنے کا پلان سامنے آیا ہے ،جس میں ان اہم عرب ممالک کے فوجی بھی شامل ہونگے جو اسرائیل کے ساتھ اس دیرینہ سکیورٹی تعاون میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
ان چھ اہم ممالک میں سے پانچ ممالک نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہا تھا کہ وہ ایسے طریقہ کار کی حمایت کرتے ہیں جو فریقین کے درمیان سلامتی کا ضامن ہو۔ تاہم ان عرب ممالک نے کھل کر اس بات کا عہد نہیں کیا کہ وہ اپنے فوجی دستے غزہ میں تعینات کریں گے۔
دی واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے ان چھ اہم عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعلقات کے پیچھے اہم محرک ایران تھا۔ ایران اور اس کے اتحادی ملیشیا کی جانب سے عرب ممالک کو لاحق خطرات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ جسے سینٹ کام کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے ان تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اخبار لکھتا ہے کہ ایک دستاویز میں ایران اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں کو "برائی کے محور” کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور دوسری میں غزہ اور یمن پر میزائلوں کے ساتھ ایک نقشہ شامل ہے، جہاں ایرانی اتحادی طاقت رکھتے ہیں۔ سینٹ کام کی پانچ پاورپوائنٹ پریزنٹیشنز میں اس سیکیورٹی تعاون کو ” ریجنل سیکیورٹی کنسٹرکٹ” کا نام دیا گیا۔ اس سیکیورٹی کنسٹرکٹ میں بحرین، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ جبکہ اخباری دعویٰ کے مطابق دستاویزات میں کویت اور عمان کو "ممکنہ شراکت دار” کے طور پر بتایا گیا ہے جنہیں تمام میٹنگز کے بارے میں بریفنگ بھی دی گئی تھی۔ اس کے علاؤہ ان ممالک کے ساتھ آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل "فائیو آئیز” انٹیلی جنس اتحاد بھی پلان کا حصہ ہے۔
یہ دستاویزات 2022 سے 2025 کے درمیانی عرصے میں لکھی گئیں جبکہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی تھی۔ 2025 کی ان دستاویزات کے مطابق سینٹ کام کے اہلکاروں نے "ایران فلسطینیوں کا محافظ ہے اور علاقائی خوشحالی اور تعاون کے شراکت دار” بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے معلوماتی آپریشن شروع کرنے کی منصوبہ بندی سے متعلق ملاقاتوں کی قیادت کی۔
اخبار کے ان دعووں کو سچ مان لیا جائے تو بظاہر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عرب ممالک کو غزہ میں معصوم فلسطینی جانوں کے قتل عام کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ ان کی فکر کا محور ایران تھا جس کے خوف سے وہ اسرائیلی درندگی کو نا صرف برداشت کرتے رہے بلکہ اس دوران اس کے مشترکہ فوجی مشقیں بھی جاری رہیں۔