تحریر : سمیرا سلیم
چند روز قبل وفاقی حکومت نے گندم پالیسی2025-2026 کی منظوری دی ہے جس میں گندم کی امدادی قیمت کو 35 سو روپے من مقرر کیا گیا ہے۔ وزہر خزانہ محمد اورنگزیب نے یہ نوید بھی سنائی کہ گندم اور چینی کو ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے گا، جس کے بعد کوئی صوبہ گندم کی نقل و حرکت پر پابندی نہیں لگا سکے گا۔
وزیر خزانہ نے اعلان تو کر دیا ہے لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں ۔پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی بین الصوبائی ترسیل پر لگائی گئی پابندی ابھی تک قائم ہے۔ جمعرات کو خیبر پختونخوا کی حکومت نے پنجاب حکومت کو خط لکھا ہے کہ پنجاب کی جانب سے بین الصوبائی نقل و حرکت پر لگائی گئی پابندیوں کے باعث خیبر پختونخوا میں گندم کی روزانہ 14ہزار500 میٹرک ٹن کی ضرورت پوری نہیں ہو پا رہی جبکہ پشاور میں گندم کی قیمت 6ہزار175 روپے (100 کلو) سے بڑھ کر 10ہزار675 روپے تک جا پہنچی ہے۔ آٹے کی قیمت میں بھی دوگنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔خط میں پنجاب حکومت سے فوری طور پر یہ پابندیاں ہٹانے اور خیبر پختونخوا کے عوام کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
دیکھا جائے تو حکومت پنجاب ایک غلط ٹرینڈ سیٹ کر رہی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 151(1) بین الصوبائی تجارت کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔مستقبل میں اگر ہر صوبے نے یہ روش اپنا لی کہ” میرا صوبہ میری مرضی ” تو ملکی معاملات چلانا مشکل ہو جائیں گے۔ آج اگر بلوچستان والے کہیں کہ ہماری گیس ہماری مرضی ، ہمارے سونے کے ذخائر ہماری مرضی اور پھر خیبرپختونخوا کی حکومت بھی اٹھ کر کہ دے کہ ہماری بجلی، ہماری معدنیات تو پھر وفاق کیسے چلے گا؟ سندھ حکومت ویسے ہی آپ کو نہریں نکالنے کی اجازت نہیں دے رہی، کہ ہمارا سندھو دریا ہے سو ہماری مرضی۔ لہذا یہ جو کچھ پنجاب حکومت دوسرے صوبوں کے ساتھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے حربوں سے صوبوں کے درمیان ٹکراؤ کی فضا پیدا ہو گی، جو کسی صورت وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے لئے اچھے نتائج پیدا نہیں کرے گی۔
اب اگر گندم کی امدادی قیمت کی بات کی جائے تو ماضی میں اس حوالے سے کئے گئے کچھ فیصلوں کا جائزہ لینا ہوگا۔سال 2023 میں انوار کاکڑ کی نگران حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900 سو روپے من مقرر کی تھی۔ کسان نے گندم خوب کاشت کی۔ جب 2024 شروع ہوا تو حکومت نے اعلان کیا کہ گندم کے ذخائر کم ہیں اس لیئے گندم امپورٹ کرنی ہوگی۔ کسان تنظیموں نے شور مچایا کہ اپنی فصل آنے والی ہے اگر گندم امپورٹ کی گئی تو اپنے کسان کی فصل کون خریدے گا۔ مگر کسان کی اس ملک میں کون سنتا ہے۔یوکرین سے اربوں روپے مالیت کی کیڑوں والی گندم امپورٹ کرلی گئی۔اپنے کسان کی باری ائی تو پاسکو نے 3900 سو روپے من کے حساب سے چند دن خریداری کے بعد اپنے سنٹرز بند کر دیئے اور کسان کو آڑھتیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔
کسان 2600 سو روپے من پر گندم بیچنے پر مجبور ہوگئے۔یوکرین کی اس ناقص گندم کی خریداری کے اسکینڈل کا حشر بھی وہی ہوا جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ۔ قوم کو اربوں کا چونا لگانے والے قانون کی گرفت سے آزاد رہے۔رواں سال پنجاب حکومت اور وفاق نے کسانوں سے گندم خریدنے سے صاف انکار کر دیا۔وزیر اعلی مریم نواز کی حکومت نے کسانوں کو کورا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کے پاس تو پہلے ہی لاکھوں ٹن امپورٹڈ و ملکی گندم کے ذخائر موجود ہیں اور حکومت اس سلسلے میں پہلے ہی 350 ارب روپے کی مقروض ہے۔پیغام واضح تھا کہ پنجاب کا کسان جانے اور اس کی گندم۔ کسان کو ایک بار پھر آڑھتیوں اور ذخیرہ مافیا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ کسان کو اپنی گندم دو ہزار روپے من پر بیچنی پڑی۔ آج 4 ماہ بعد کسان سے 2 ہزار روپے میں خریدی جانے والی وہی گندم 3500 روپے میں بیچی جا رہی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ن لیگ جب بھی اقتدار میں آئی زراعت اور کسان کو نظرانداز کیا۔کسانوں کو فصل کی مناسب قیمت نہیں ملی ۔گندم ہو یا کماد کسان رلتا رہا جبکہ تاجر ، صنعت کار کیلئے ان کے دروازے ہمیشہ کشادہ رہے۔صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مالی سال 2024-25 کے پہلے 10 ماہ کا امپورٹ بل 7 ارب ڈالرز سے زائد ہے۔ کہنے کو ہم زرعی ملک ہیں مگر سویا بین، آئل، دالیں، چینی اور چائے وغیرہ پر 7 ارب ڈالر پھونک دیئے گئے ہیں۔ غیر ملکی کسان سے مہنگی اشیاء خرید لینی ہیں مگر اپنے کسان کو اس کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں دینا۔حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ اب کسانوں کی جانب سے بھی یہ بات سامنے آرہی ہے کہ اس بار صرف گھر کی ضرورت کیلئے گندم کاشت کی جائے گی۔
کسان اتحاد پاکستان کے چیئرمین خالد حسین باٹھ نے حکومت کی امدادی قیمت کو مسترد کرتے ہوئے اسے 4500 روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسان اتحاد نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت قیمت 4500 سو روپے فی من قیمت مقرر نہیں کرتی تو کسان گندم کاشت نہیں کریں گے۔اس مطالبے کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے توآج کسان کیلئے کھاد ،سپرے، بجلی کی قیمتیں ماضی کی نسبت دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی ہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان میں گندم کی امدادی قیمت 35 سو روپے فی من مقرر کرنا کسان سے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ حکومت کو سوچنا ہوگا کہ اگر کسانوں نے اپنی دھمکی پر عملدرآمد کرتے ہوئے گندم کاشت نہ کی تو ملک کی فوڈ سیکیورٹی کا کیا ہوگا؟ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت پہلے ہی پتلی ہے۔ قرض کی ایک ایک قسط کی بھیک کیلئے ہم آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑ رہے ہیں ایسے میں گندم کی امپورٹ کیلئے اتنے ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟





