تحریر : محمود جان بابر
عمران خان کا متعین کردہ ایک وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور، خاموشی سے سرکاری گاڑیوں میں سامان بھر کر صوبے کے آخری سرے پر واقع اپنے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سدھار گیا، اور اس کی جگہ پشاور سے متصل ضلع خیبر کے سہیل آفریدی نے لے لی۔ یہ تبدیلی بھی اتنی ہی خاموشی سے ہوئی جتنی خاموشی اس جماعت کی طویل حکمرانی کے اختتام پر نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں ایک دہائی تک اقتدار میں رہی۔ ایک کے بعد دوسرا، اور دوسرے کے بعد تیسرا وزیراعلیٰ آتا گیا۔ لیکن کسی کے جانے کے بعد یہ سوال کبھی زیرِ بحث نہیں آیا کہ جانے والا قومی خزانے کو کیا نقصان دے کر گیا ہے۔
وجہ شاید یہی تھی کہ اگر کسی پر ہاتھ ڈالا جاتا تو نقصان انفرادی کے بجائے اجتماعی ہوتا — یعنی جماعت کو اس کا سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ اس خاموش مفاہمت نے خیبرپختونخوا میں احتساب کے نعرے کو تدریجاً بے معنی بنا دیا۔
تحریک انصاف نے 2013 میں جب پہلی بار حکومت بنائی تو عوام کے ذہن میں ایک ہی تصور تھا — کرپشن سے پاک ایک نیا پاکستان۔ عمران خان نے خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جو روایتی سیاست سے مختلف ہے، جو “نظام بدلنے” آیا ہے۔ اس مقصد کے لیے خیبرپختونخوا میں احتساب کمیشن قائم کیا گیا۔ ابتدا میں یہ ایک غیر معمولی قدم سمجھا گیا۔ لیکن جب احتساب کے دائرے نے اپنے ہی لوگوں کو چھوا تو حالات بدل گئے۔
پرویز خٹک کی حکومت کے دوران صوبائی وزیر معدنیات ضیاء اللہ آفریدی کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر سنگین الزامات لگے، لیکن جیسے ہی کارروائی کا دائرہ اپنے وزیروں اور سیکرٹری سطح کے افسروں تک پھیلا، سارا نظام رک گیا۔ سرکاری افسروں نے پندرہ ہزار روپے سے زائد کے بلوں پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ حکومتی مشینری مفلوج ہوگئی اور یوں احتساب کا عمل عملی طور پر منجمد کردیا گیا۔
اس دور میں احتساب کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جنرل حامد خان (یا اس دور کے کسی اعلیٰ فوجی افسر) نے اپنی ہی حکومت پر سوال اٹھایا کہ جب احتساب کرنا نہیں تھا تو کمیشن بنایا کیوں گیا؟ ان کا احتجاج اس نظام کے خلاف تھا جو احتساب کے نعرے کے ساتھ کھڑا کیا گیا تھا مگر سیاسی مصلحتوں کے نیچے دب گیا۔ جلد ہی کمیشن غیر فعال ہوگیا، اور جو نظام کرپشن کو ختم کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا، وہ خود سیاسی دباؤ کا شکار ہوگیا۔
اس کے بعد عمران خان کو اپنی حکومت کو احتساب سے زیادہ کارکردگی کی طرف موڑنا پڑا۔ پارٹی کے اندر یہ احساس غالب آگیا کہ اگر احتساب اپنے لوگوں تک پہنچا تو پوری جماعت کمزور پڑ جائے گی۔ یوں احتساب کا نعرہ عملی سیاست کے شور میں گم ہوگیا۔
یہی وہ موڑ تھا جہاں سے خیبرپختونخوا میں احتساب کے دروازے بند ہونا شروع ہوئے۔ نہ کسی وزیراعلیٰ سے پوچھا گیا کہ اس کے دور میں صوبے کے وسائل کہاں خرچ ہوئے، نہ کسی وزیر سے کہ کن ٹھیکوں اور منصوبوں میں شفافیت تھی۔ ہر آنے والا پچھلے کی طرح اپنی باری کھیلتا گیا، اور جانے والا صاف دامن جھاڑ کر رخصت ہوگیا۔
اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی تسلسل بھی تھا۔ خیبرپختونخوا وہ واحد صوبہ رہا جہاں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ایک کے بعد دوسری مدت میں بھی قائم رہی۔ اس تسلسل نے ایک سیاسی ڈھال کا کام کیا۔ کیونکہ اگر اس کے بعد کوئی دوسری جماعت آتی تو یقیناً وہ پچھلی حکومت کے مالی و انتظامی امور کی چھان بین کرتی، جیسا کہ پاکستانی سیاست میں روایت رہی ہے۔ لیکن چونکہ اقتدار ایک ہی جماعت کے ہاتھ میں رہا، اس لیے کوئی احتسابی دباؤ پیدا نہیں ہوا۔
یوں ایک دہائی گزر گئی۔ صوبے میں تین وزیراعلیٰ آئے اور گئے — لیکن کوئی احتساب نہیں ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی جماعت مرکز میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے دوسرے سیاستدانوں پر کرپشن کے شدید الزامات لگاتی رہی۔ لیکن اپنے اقتدار کے ایام پر کبھی نظر نہیں ڈالی۔
اس پورے عمل میں عمران خان کی سیاسی بصیرت اور کمزوریاں دونوں نمایاں ہوئیں۔ انہوں نے احتساب کا نعرہ تو بلند کیا، مگر اس پر عمل درآمد کے لیے سیاسی قربانی دینے کی جرات نہ دکھائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس نظام کے خلاف وہ میدانِ سیاست میں اترے تھے، وہی نظام ان کے اقتدار کا محافظ بن گیا۔
آج جب تحریک انصاف اقتدار سے باہر ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ان ادوار کے مالی حسابات کا جائزہ لے گا؟ کیا صوبائی منصوبوں، ٹھیکوں اور فنڈز کی شفافیت پر کبھی روشنی ڈالی جائے گی؟ یا پھر یہ باب بھی پاکستانی سیاست کی دیگر مثالوں کی طرح بند رہے گا، جب تک کوئی نیا سیاسی حریف اسے کھولنے کی ضرورت محسوس نہ کرے؟
تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں واقعی ایک نئی سیاسی روایت تو قائم کی — مگر وہ احتساب کی نہیں، احتساب سے بچنے کی روایت تھی۔ اور شاید یہی وہ خاموش کامیابی ہے جسے پارٹی اپنے کھاتے میں “استحکام” کے طور پر لکھ سکتی ہے۔





