سمیر اسلیم کا بلاگ
امریکا کے مالیاتی حب نیویارک میں ایک بڑی نسلی اور نظریاتی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک مسلمان زہران ممدانی تاریخ رقم کرتے ہوئے نیویارک کے 111ویں میئر منتخب ہو گئے ہیں۔ ایک جمہوری سوشلسٹ سیاستدان 34 سالہ ممدانی کو 1960 کے بعد سب سے زیادہ ووٹ پڑے۔ زہران ممدانی کی شاندار جیت پر بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے مبارکباد دی جو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی زد میں ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے نیویارک کے شہریوں کو کراچی والوں سے ملانے اور جمہوریت کے دعویدار ہونے کا دعویٰ کیا۔ان کا کہنا تھا روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیادی حقوق دنیا بھر کے انسانوں کے لیے یکساں اہم ہیں۔چاہے وہ کراچی کے شہری ہوں یا نیویارک کے۔
یہ بات تو درست ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی دنیا کے ہر کونے میں بسنے والوں کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہیں تاہم زہران ممدانی کا موازنہ کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور نہ نیویارک کے باسیوں کا کراچی کے باسیوں سے موازنہ بنتا ہے۔ظہران ممدانی براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے جبکہ مرتضی وہاب کو جس طرح اکثریت دلائی وہ زبان زد عام ہے۔ زہران ممدانی اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں اور وہ نیویارک کو ایسا بنانا چاہتے ہیں جہاں ورکنگ کلاس کی زندگی سہل ہو۔ ممدانی نے نیویارک کے شہریوں کو بچوں کی مفت نگہداشت اورفری بسوں کی سہولیات کے ساتھ ساتھ اپارٹمنٹس کے کرایوں کو تین سال کے لیے فریز کرنے کا وعدہ کیا۔پیپلز پارٹی گزشتہ 16 برسوں سے اقتدار میں ہے اور حالات یہ ہیں کہ کراچی کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بن گیا ہے۔سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔شہری برسوں سے صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ایک بارش کیا برستی ہے کہ پورا شہر تالاب کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ہم ہیں کہ موازنہ نیویارک سے کرنے چلے ہیں۔ سندھ کی حالت پر ایک سرسری نظر دوڑائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 10 اضلاع کی کم از کم 70 فیصد آبادی اب بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق 5 اضلاع میں 80 فیصد سے زیادہ لوگ غربت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ان 5 اضلاع میں غربت کی سطح تھرپارکر سے بھی زیادہ ہے۔ سندھ کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع ٹھٹھہ، سجاول، کشمور، بدین اور جیکب آباد ہیں۔
آصف زرداری کے ماضی کے منظور نظر ذوالفقار مرزا اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا تعلق بھی اسی پسماندہ ضلع سے ہے۔ اس جوڑے کی داستانیں بھی کسی سے کم نہیں۔ ایک دستاویز کے مطابق 2008 میں الائیڈ بینک نے مرزا شوگر ملز جو کہ محترمہ فہمیدہ مرزا کی ملکیت تھی کا 66.748 ملین روپے قرض معاف کیا۔ اسکے علاؤہ 482 ملین روپےمسلم کمرشل بینک سے رائٹ آف کروائے۔
قومی اسمبلی میں میر منور علی تالپور نے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پر بینکوں سے 280 ملین روپے رائٹ آف کرانے کا الزام بھی لگایا۔ اس وقت سندھ میں 6 لاکھ سے زائد عطائی ڈاکٹرز سرگرم ہیں جن میں 40 فیصد کراچی میں ہیں۔ بچوں میں ایڈز کا پھیلاؤ انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ اس وقت ایڈز سے متاثرہ بچوں کے 3995 کیسز رجسٹرڈ ہیں جن میں صرف بھٹو کے لاڑکانہ میں 1144 متاثرہ بچے شامل ہیں، شکارپور میں 509، شہید بےنظیر آباد 256 اور میرپورخاص میں 228 کیسز موجود ہیں۔
اسی طرح بچوں سے زیادتی کے کیسز میں بھی سندھ سب سے آگے ہے۔ سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے گذشتہ دنوں اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق سندھ میں ہر روز 4 بچے جنسی تشدد کا سامنا کرتے ہیں ۔ جنوری سے جون 2025 تک بچوں سے زیادتی کے 604 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہماری سوسائٹی جہاں پر جنسی زیادتی سوشل سٹگما ہیں وہاں پر اگر رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد یہ ہے تو حقیقت تو بہت خوفناک ہو گی۔ اس کے علاوہ رواں برس اب تک پولیو کے 9 کیسز سندھ میں سامنے آئے ہیں۔ ڈینگی بھی بے قابو ہے۔
چند ماہ قبل حیدرآباد کی بدحالی پر ایک رپورٹ نظر سے گزری جس سے معلوم ہوا کہ کس طرح پورا شہر کوڑے دان کا منظر پیش کر رہا۔ کوڑا کرکٹ سے اٹھنے والے تعفن نے حیدرآباد کے شہریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بیماریاں الگ سے پھیل رہی ہیں۔ کراچی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد والوں کے لئے بھی مون سون کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ اب آپ ہی بتائیں بلاول کا نیویارک سے موازنہ کرنا بنتا تھا؟سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے تنقید کی دوسری بڑی وجہ بلاول کا جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ تھا۔ بلاول بھٹو خود کو ایک جمہوریت پسند کے طور پر پیش کرتے ہیں اور مال غنیمت کے طور پر ملی مخصوص نشستوں کو قبول کرنے میں انھیں کوئی عار بھی نہی۔
بلاول فخر کرتے ہیں کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے وطن عزیز کو متفقہ آئین دیا۔ اس آئین میں 1973 سے لیکر اب تک 26 ترامیم ہو چکی ہیں۔7 ترامیم تو ان کے اپنے نانا کے دور میں ہی ہوئیں۔ تیسری ترمیم میں حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی فرد کو اینٹی اسٹیٹ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر تین ماہ تک قید میں رکھ سکتی ہے۔ ججز کے اختیارات اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے بھی آئینی ترامیم ہوتی رہیں۔ بلکہ چوتھی آئینی ترمیم بھی اسی حوالے سے تھی۔ اب تک ہونے والی ان چھبیس آئینی ترامیم میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو عوام کے مفادات سے متعلق ہو۔ وطن عزیز میں ترامیم ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے ہوتی رہیں۔ اور جس طرح سے بلاول بھٹو نے عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کے لئےچھبیسویں آئینی ترمیم میں کردار ادا کیا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ اور اب ستائیسویں آئینی ترمیم میں بھی پیپلز پارٹی صرف این ایف سی ایوارڈ کو بچانا چاہتی ہے تاکہ صوبے کو ملنے والے اربوں روپے کے حصے میں کوئی کمی نہ ہو اور وہ اپنی مرضی سے اس مال پر ہاتھ صاف کر سکیں۔
اس کھیل میں جب تک آصف زرداری کے مالی مفادات کو تحفظ ملتا رہے گا آنے والی کسی بھی آئینی ترمیم میں رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی۔ 27ویں مجوزہ ترمیم میں سب سے اہم صرف آرٹیکل 243 ہے جو فوج سے متعلق ہے۔ اس میں ترمیم کی حمایت پیپلز پارٹی نے ظاہر کر دی ہے۔باقی صرف کہانیاں ہیں ۔ کوئی ان جمہوریت کے چمپیئنز کے دعویداروں کو بتائے کہ حقیقی جمہوریت وہ ہے جہاں ارب پتیوں کے ڈالرز ، ٹرمپ کی طاقت اور اسٹیبلشمنٹ بھی ممدانی کو میئر بننے سے نہ روک سکی۔ ووٹ اور ووٹر ،دونوں کو عزت دی گئی ۔ٹرمپ کے حمایت یافتہ طاقتور امیدوار اینڈریو کومو کو فارم 47 سے نیویارک کے شہریوں پر مسلط نہیں کیا گیا۔سب عوامی خواہش کے آگے سر نگوں ہوئے۔





