جنوبی کیرولائنا میں جمعہ کے روز 44 سالہ اسٹیفن برائنٹ کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے پھانسی دے دی گئی، جس کے بعد وہ اس سال ریاست میں اس طریقے سے پھانسی پانے والا تیسرا شخص بن گیا۔ برائنٹ کو 2004 میں پانچ دن کے اندر اندر ایک دیہی علاقے میں تین افراد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اُس نے زہریلا ٹیکہ (لیتل انجیکشن) یا الیکٹرک چیئر کے بجائے فائرنگ اسکواڈ کو ترجیح دی۔
برائنٹ نے آخری بیان نہیں دیا، صرف 10 گواہوں کی طرف مختصر سی نظر ڈالی جس کے بعد اس کے سر پر ایک نقاب ڈال دیا گیا۔ تین جیل اہلکاروں اسے پھانسی دی ۔
تقریباً 55 سیکنڈ بعد فائرنگ کی آواز آئی۔ برائنٹ نے کوئی آواز نہ نکالی جب اس کے سینے پر لگے سرخ دائرے والے نشانے کا نشان گولی لگنے کے ساتھ ہی آگے کی طرف جھٹکا۔ چند ہلکی سانسوں اور ایک آخری جھٹکے کے بعد، تقریباً ایک منٹ کے اندر ڈاکٹر نے اسٹیتھوسکوپ سے معائنہ کیا اور اسے مردہ قرار دے دیا۔
یہ جنوبی کیرولائنا میں گزشتہ 14 ماہ میں ساتویں پھانسی ہے، جبکہ ریاست میں 13 سال تک پھانسیوں کا سلسلہ رکا رہا کیونکہ وہ زہریلے ٹیکوں کی ادویات حاصل نہیں کر سکی تھی۔
ریپبلکن گورنر ہنری مک ماسٹر نے برائنٹ کی رحم کی درخواست مسترد کر دی۔ 1976 میں امریکا میں سزائے موت کی بحالی کے بعد سے کوئی بھی جنوبی کیرولائنا کا گورنر رحم کی درخواست منظور نہیں کر سکا۔
اپنے آخری کھانے میں برائنٹ نے مصالحہ دار مکسڈ سی فوڈ اسٹر فرائی، تلّی ہوئی مچھلی چاول کے ساتھ، ایگ رولز، بھرے ہوئے جھینگے، دو کینڈی بارز اور جرمن چاکلیٹ کیک کھایا۔
بو کنگ، جو جنوبی کیرولائنا میں سزائے موت کے مقدمات پر کام کرتے ہیں، نے کہا کہ برائنٹ کو جینیاتی بیماری تھی، وہ رشتے داروں کے ہاتھوں جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار رہا، اور اس کی ماں کے ضرورت سے زیادہ شراب نوشی نے “اس کے جسم اور دماغ کو مستقل نقصان پہنچایا۔”
ان کا کہنا تھا کہ برائنٹ کی کمزوریوں نے اسے اپنے بچپن کی اذیت ناک یادوں کو برداشت کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
کنگ نے کہا کہ برائنٹ “اپنے خاندان کو معاف کرنے میں غیر معمولی برداشت اور ہمت کا مظاہرہ کرتا تھا اور اپنے قریبی اور دور کے لوگوں سے بے پناہ محبت رکھتا تھا۔ ان کا کہنا تھا ہم اس کی غیر معمولی دوستیوں، اس کی حفاظتی فطرت، اور قدرت، پانی اور دنیا سے اس کی محبت کو یاد رکھیں گے۔
فائرنگ اسکواڈ کی تاریخ دنیا بھر میں طویل اور خونی رہی ہے۔ گولیوں کی بوچھاڑ کے ذریعے موت فوج میں بغاوت اور فرار کی سزا کے طور پر، امریکا کے قدیم مغربی علاقوں میں فوری انصاف کے طور پر، اور سابق سوویت یونین اور نازی جرمنی میں دہشت کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
لیکن حالیہ برسوں میں اسے امریکا میں دوبارہ اختیار کیا گیا ہے۔ کچھ قانون ساز اسے کسی شخص کو پھانسی دینے کا تیز ترین اور "سب سے انسانی” طریقہ قرار دیتے ہیں۔
یہ اس وجہ سے ہے کہ دیگر طریقوں، خصوصاً زہریلے ٹیکے کے ذریعے پھانسی، میں کئی بار سنگین غلطیاں ہو چکی ہیں، اور جنوبی کیرولائنا سمیت کئی ریاستیں ان ادویات کی فراہمی برقرار نہیں رکھ سکیں۔
اسی وجہ سے جنوبی کیرولائنا نے 13 سال تک پھانسیاں روک دیں۔ پھر ستمبر 2024 میں پھانسیاں دوبارہ شروع ہوئیں، جس کے بعد چار افراد کو زہریلے ٹیکے اور دو کو فائرنگ اسکواڈ سے پھانسی دی گئی۔ ریاست ان چند جگہوں میں شامل ہے جہاں اب بھی الیکٹرک چیئر قانونی ہے۔
امریکا میں فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے تین حالیہ پھانسیاں یوٹاہ میں ہوئیں، اور وہاں 2010 کے بعد سے کوئی پھانسی نہیں ہوئی۔ یہ طریقہ آئیڈاہو میں بھی قانونی ہے، اور اوکلاہوما اور مسیسپی میں بطور بیک اپ طریقہ موجود ہے۔
برائنٹ نے اعتراف کیا کہ اکتوبر 2004 میں اس نے ولن “ٹی جے” ٹیٹجن کو قتل کیا۔ وہ ٹیٹجن کے دور دراز گھر گیا اور کہا کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہےاور وہاں اس نے ٹیٹجن کو کئی گولیاں ماری گئیں۔ قتل کے بعد برائنٹ نے اس کے گھر کی بجتی ہوئی فون کالز بھی اٹھائیں۔
برائنٹ نے دو اور مردوں کو بھی قتل کیا، ایک ٹیٹجن سے پہلے اور ایک بعد میں۔ وہ انہیں لفٹ دیتا اور جب وہ سڑک کنارے پیشاب کرنے کے لیے اترتے تو انہیں پیٹھ میں گولی مار دیتا۔
برائنٹ 2025 میں اب تک امریکا میں عدالتی حکم پر پھانسی پانے والا 43واں شخص ہے۔ کم از کم مزید 14 افراد اس سال کے بقیہ مہینوں اور اگلے سال میں پھانسی کے منتظر ہیں۔وہ جنوبی کیرولائنا میں گزشتہ 40 سال میں پھانسی پانے والا 50 واں شخص بھی ہے۔
فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے پھانسی کیسے ہوتی ہے؟
جیل کے ڈیتھ چیمبر میں پردہ کھلتا ہے، جہاں ایک درجن سے کم گواہ بلٹ پروف شیشے کے پیچھے بیٹھے ہوتے ہیں۔
ملزم کو کرسی پر کس کر باندھ دیا جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر اس کے دل پر سرخ دائرے والا سفید مربع نشان لگاتا ہے۔ اس کا وکیل آخری بیان پڑھ سکتا ہے۔ پھر ایک جیل اہلکار اس کے سر پر نقاب چڑھاتا ہے، کمرے کے پار چل کر ایک سیاہ پردہ کھولتا ہے جہاں فائرنگ اسکواڈ موجود ہوتا ہے۔
بغیر کسی انتباہ کے، شوٹرز 15 فٹ (چار اعشاریہ چھ میٹر) کے فاصلے سے تیز رفتار رائفلوں سے فائر کرتے ہیں۔
ایک یا دو منٹ کے اندر ڈاکٹر آتا ہے، معائنہ کرتا ہے اور موت کی تصدیق کر دیتا ہے۔
پچھلے شخص کی پھانسی کے بعد وکلاء کا کہنا تھا کہ شوٹرز میکل مہدی کے دل کو تقریباً چوک گئے تھے۔ ان کے مطابق دل کے بالکل نچلے حصے پر گولی لگنے سے مہدی کو وہ درد تین سے چار گنا زیادہ دیر تک برداشت کرنا پڑا جس مدت میں ماہرین کے مطابق اسے براہِ راست دل پر گولی لگنے کی صورت میں موت آ جاتی۔





