برسلز : ایک فرانسیسی نیول کمانڈر نے اعتراف کیا ہے کہ مئی 2025 کے حالیہ تنازع کے دوران پاکستان نے بھارتی رافیل لڑاکا طیاروں کو کامیابی سے مار گرایا۔
یہ اعتراف بین الاقوامی ذرائع کی جانب سے ایک اور تصدیق ہے، اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی کانگریس بھی اس واقعے کی توثیق کر چکے ہیں۔
نیول ایئر بیس لینڈیوسیو کے کمانڈر کیپٹن جیکس لونے نے ان خیالات کا اظہار انڈو پیسیفک کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ناکامی کی وجہ رافیل طیاروں کی کوئی خرابی نہیں تھی بلکہ وہ بھارتی پائلٹس تھے جو انہیں اڑا رہے تھے۔
یہ فرانسیسی بیس رافیل کے اُس اسکواڈرن کا مرکز ہے جو 40 سے زائد جوہری صلاحیت کے حامل میزائلوں سے لیس ہے، اور بیان دینے والے کیپٹن لونے کو مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ میں متعدد مشنز کے دوران ان طیاروں کو اڑانے کا 25 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔
انڈو پیسیفک کانفرنس میں خطاب کے دوران فرانسیسی کمانڈر نے پاکستان کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کی تعریف کی، اور کہا کہ پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) نے نہایت مؤثر انداز میں صورتحال کو سنبھالا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ بھارتی رافیل طیارے چینی طیاروں کی تکنیکی برتری کے باعث نہیں گرے، بلکہ پاکستان کے مضبوط دفاع اور حکمتِ عملی کی وجہ سے مار گرائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑائی انتہائی پیچیدہ تھی، جس میں 140 سے زائد لڑاکا طیارے شامل تھے، اور پاکستان نے اس صورتحال کو سنبھالنے میں بھارت سے بہتر کارکردگی دکھائی۔
جب ان سے تنازع کے دوران رافیل کے ریڈار سسٹم کی ناکامی سے متعلق سوال پوچھا گیا تو کیپٹن لونے نے واضح کیا کہ مسئلہ مشینوں میں نہیں بلکہ ان کے استعمال میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ رافیل طیارے کسی بھی جنگی منظرنامے میں چینی طیاروں کو شکست دے سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے سسٹمز کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارتی حکومت اب رافیل کے نیول ورژن خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے، جو بحری جہازوں (ایئرکرافٹ کیریئر) پر لینڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ نیول رافیل طیارے جوہری میزائل لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، جو اس وقت صرف فرانسیسی نیوی کے پاس موجود ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان اس فضائی جھڑپ کی تفصیلی جانچ عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، جو مستقبل کے تنازعات کے لیے اہم عسکری اسباق فراہم کرتی ہے—خصوصاً پائلٹس، لڑاکا طیاروں اور ایئر ٹو ایئر میزائلوں کی حقیقی جنگ میں کارکردگی کے حوالے سے۔





