سمیرا سلیم کا بلاگ
انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان میں گورننس اور کرپشن اسیسمنٹ پر وہ رپورٹ بالآخر آگئی جسے 3 ماہ سے چھپایا جا رہا تھا۔ اس تہلکہ خیز رپورٹ میں جس طرح سے معاشی ، سیاسی اور طاقتور اشرافیہ کو چارج شیٹ کیا گیا ہے وہ پاکستانیوں کے لئے چشم کشا ہے۔ پاکستان میں سرکاری شعبے سے لیکر کارپوریٹ سیکٹر تک گویا کوئی جگہ ایسی نہیں بچی جہاں بدعنوانی نے اپنے پنجے نہ گاڑے ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت کو یہ رپورٹ جولائی میں ہی دے دی تھی ، مگر حکومت اپنے خلاف چارج شیٹ کو پبلک کرنے سے کتراتے رہی۔ اب بھی وزارت خزانہ کو مجبورا اسے عوام کے سامنے لانا پڑا کیونکہ آئی ایم ایف نے کہ دیا تھا کہ اگر رپورٹ کو پبلک نہ کیا گیا تو ایگزیکٹو بورڈ کے آئندہ اجلاس میں 1.2 ارب ڈالرزکی دو قسطوں کی منظوری کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔ مہر بخاری صاحبہ کا کہنا ہے کہ ابھی اس رپورٹ کو Water Downکرایا گیا ہے۔ یعنی تلخ سچائی کو کچھ نرم لبادہ اوڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اپنی رپورٹ کے پہلے سیکشن میں آئی ایم ایف نے بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کے 1947 کے خطاب کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس کرپشن کو قائد اعظم نے آج سے 70 برس پہلے ملک کے لئے زیر قاتل قرار دیا تھا وہ بدعنوانی آج بھی ملک کی معاشی و سماجی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی 186 صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ نے دراصل 1947 سے اقتدار میں رہنے والی حکومتوں خاص طور اشرافیہ کی گرفت میں نظام کو ننگا کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق طاقتور اور مراعات یافتہ طبقہ اہم معاشی شعبوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان میں ریاستی ملکیتی یا ریاستی سرپرستی میں ادارے بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کرپشن ”مسلسل اور تباہ کن“ ہے، جو قومی خزانے، اقتصادی ترقی اور عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ نیب کی 2023 سے 2024 تک کی ریکوریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن کس حد تک نظام میں سرایت کر چکی ہے۔ آئی ایم ایف نے 5300 ارب روپے کی نیب ریکوری کا حوالہ دیتے ہوئے کرپشن کے حجم کا اشارہ دیاہے۔ اس رپورٹ میں شوگر سیکڑ، سیمنٹ سیکٹر، رئیل اسٹیٹ، حکومت کے آرگنائزیشنل ڈیزائن ،پبک فنانشل مینیجمینٹ ، پبلک پروکیورمنٹ ، آڈٹ جنرل آفس کا مکمل طور پر آزاد نہ ہونا، عدلیہ اور ٹیکس کے پیچیدہ نظام میں بدعنوانی اور شفافیت کی کمی بارے گواہی دی ہے۔
آئی ایم ایف نے 2019 میں پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت کو اس بات کی مثال قرار دیا کہ کس طرح با اثر کاروباری ادارے اور سرکاری عہدیدار پالیسیوں کو اپنے فائدے کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شوگرز مل مالکان اپنے فائدے کے لیے برآمدات اور قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوئے، وافر ذخیرہ ہونےکے باوجود شوگرمل مالکان نےمصنوعی قلت پیدا کی اور ملی بھگت سے قیمتوں میں رد بدل کیا۔ چند روز قبل چینی کے اسی سیاسی گورکھ دھندے پر خاکسار نے لکھا کہ کس طرح ہر دور حکومت میں شوگر مافیا اقتدار کا حصہ رہتے ہوئے اپنے کاروباری فائدے کے لئے فیصلہ سازی کرتے ہیں۔جب سیاس خاندان خود کئی شوگر ملز کے مالک ہونگے تو عوامی مفادات ان کی پالیسی کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔عوام کو یاد ہوگا کہ 2019 میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں چینی کی ایکسپورٹ کے فیصلے کے بعد چینی کی قیمتیں بڑھنےپر اپوزیشن نے خوب شور مچایا تھا جس پر عمران خان نے انکوائری کا آرڈر دیا۔آج اسی اپوزیشن نے حکومت میں آکر چینی ایکسپورٹ کر کے چینی کی قیمت 140 سے بڑھا کر 200 روپے پر لے گئی ہے۔
اس رپورٹ کا سب سے اہم سیکشن نمبر 6 ہے جس میں رول آف لاء کی بات کی گئی ہے۔ یہ سب سے خطرناک بات ہے کہ عدلیہ اور عدالتی نظام پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ عدلیہ کی دیانت داری پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ نظام عدل بھی کرپشن کے ناسور سے نہ بچ سکا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ عوام عدلیہ کو ملک کے سب سے زیادہ بدعنوان اداروں میں شمار کرتے ہیں اور عدالتی نظام میں عدم شفافیت اور کمزور کارکردگی انصاف کی فراہمی کو متاثرکرتی ہے۔ اس رپورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم سے پیدا ہونے والی صورتحال بارے بھی ذکر کیا ہے ہے۔ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں حالیہ تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ججوں کی تقرری کیلیے واضح، شفاف اور میرٹ پر مبنی معیار وضع کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد سے تو ہمارا نظام عدل ویسے ہی ایگزیکٹو کے کنٹرول میں آ چکا۔ فیصلہ سازی میں شفافیت تو اب دیوانے کے خواب جیسی ہے۔
آئی ایم ایف نے قرض کی قسط جاری کرنے سے پہلے اشرافیہ کا کچھا چٹھا کھول دیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اس اشرافیہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اندازہ لگائیں پچھلے دو سالوں میں میں جیسے ادارے نے اربوں ڈالرز کی ریکوری کی ہے اور آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالرز لینے کے لئے پیر پکڑنے پڑتے ہیں۔ افسوس کہ ملک 1947 سے ہی طاقتور اشرافیہ کی قید میں ہے۔ کرپشن کی نذر ہونے والے اربوں کھربوں روپے پاکستان کی تقدیر بدل سکتے تھے مگر یہاں تو گھر اور خزانے کے محافظ ہی ہیرا پھیری میں حصہ دار نکلے۔ عوام کو چاہیے کہ اپنا کچھ وقت سوشل میڈیا پر ریلز دیکھنے کی بجائے اس رپورٹ کے مطالعہ پر صرف کریں۔ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ کس طرح طاقتور اشرافیہ نے اپنے لئے کرپشن کوجائز قرار دے رکھا یے۔ معاشی و سیاسی اشرافیہ نے بدعنوانی کے ذریعے عوام کے حق ہر ڈاکہ ڈالا اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا۔





