ایک ایسا میدان جو عام طور پر مردوں کے زیرِ اثر سمجھا جاتا ہے، وہاں ایک اماراتی خاتون روایتی تصورات کو توڑتے ہوئے ثابت کر رہی ہے کہ جذبہ اور مہارت جنس کی پابند نہیں۔ جی ہاں ، یو اے ای کی پہلی خاتون کار مکینک کے طور پر انہوں نے شارجہ میں اپنا گیراج کھولنے کا خواب حقیقت بنا لیا ہے۔
ہدیٰ المطروشی کی کہانی نے ملکی سطح پر توجہ حاصل کی، یہاں تک کہ یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے انہیں فون کر کے دوستانہ انداز میں مذاق بھی کیا کہ وہ ان کی گاڑی ٹھیک کر دیں۔
41 سالہ ہدیٰ کے لیے مکینک بننے کا سفر 2006 میں شروع ہوا،وہ بتاتی ہیں کہ یہ سب تجسس سے شروع ہوا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ گاڑیاں کیسے ٹھیک ہوتی ہیں اور مرمت کے بعد دوبارہ کیوں خراب ہو جاتی ہیں۔
یہی تجسس انہیں یونیورسٹی کی چھٹیوں میں مختلف گیراجوں تک لے گیا، یہاں تک کہ وہ سیکھنے کے لیے اپنی گاڑی میں خود ہی چھوٹی خرابیاں ڈال دیا کرتی تھیں۔
جو شوق قریبی دوستوں اور گھر والوں کی گاڑیاں ٹھیک کرنے سے شروع ہوا تھا، وہ اب مکمل کاروبار میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ہدیٰ نے حال ہی میں اپنی متاثرکن کہانی دبئی میں 19–20 نومبر 2025 کو ہونے والی "10ویں نالج سمٹ” میں سنائی۔ یہ سمٹ محمد بن راشد المکتوم نالج فاؤنڈیشن کے تحت “نالج مارکیٹس: پائیدار کمیونٹیز کی ترقی” کے عنوان پر منعقد کی گئی، جو دنیا بھر کے ماہرین کو مستقبل کی نالج بیسڈ معیشتوں پر گفتگو کے لیے اکٹھا کرتی ہے۔
ہدیٰ نے بتایا: "ایک شخص چھ مختلف گیراجوں سے ہو کر میرے پاس آیا۔ مجھے خاتون انچارج کے طور پر دیکھ کر حیران رہ گیا اور میری قابلیت پر سوال اٹھایا، میں نے جواب دیا ،خاتون ماں بھی ہوتی ہے، بہن بھی، خالہ بھی اور بیٹی بھی—اس کی صلاحیتوں کو کم نہ سمجھیں۔اس کے بعد انہوں نے اپنی ٹیم کو ہدایات دیں، کام ہوا، اور وہ شخص چلا گیا۔اس کا مسئلہ حل ہو گیا ۔
ایک اور واقعے نے ان کے کام کو لے کر ا ن کی مہارت کو واضح کیا۔وہ بتاتی ہیں کہ ایک گاہک نے میری بتائی ہوئی گاڑی کے مناسب انجن آئل کی بات نہ مانی۔ تین ماہ بعد جب اس کا انجن خراب ہو گیا تو واپس آیا، کیونکہ اس نے تیل ایسی جگہ سے تبدیل کرایا تھا جہاں درست معلومات نہیں تھیں۔
ایسے تجربات نے ہدیٰ کے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا راستہ ضمیر کی پکار اور اپنی کمیونٹی کی خدمت کا جذبہ ہے۔
ہدیٰ کا کہنا ہے کہ وہ شروع میں ڈری ہوئی تھیں ۔ مردوں کے شعبے میں قدم رکھنا خاص طور پر اس وقت مشکل تھا جب انہوں نے کووِڈ-19 کے دوران اپنا گیراج کھولنے کا فیصلہ کیا۔لیکن میں اپنی کمیونٹی اور خواتین کی خدمت کرنا چاہتی تھی۔ یہ سوچ کہ یہ مردوں کا کام ہے، غلط ہے۔ گاڑیاں مردوں اور عورتوں دونوں کی ملکیت ہو سکتی ہیں ، جیسے ہر چیز۔
ان کی لگن نظر انداز نہیں ہوئی۔ شیخ محمد بن زید کی فون کال ان کے لیے ایک اہم لمحہ تھا۔کال پر انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تمام بچوں پر فخر ہے۔پھر ہنستے ہوئے بولے ، "میرے پاس ایک گاڑی ہے، اسے تم ٹھیک کر دو!”
ہدیٰ کو کلاسک کاروں کے لیے نایاب پرزے تلاش کرنے کی مشکلات بھی پیش آتی ہیں، جس کے باعث کئی راتیں بے خوابی میں گزرتی ہیں۔ لیکن ان کا حوصلہ قائم ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میں رکنے والی نہیں۔ میں جاری رکھوں گی۔ یو اے ای میں آپ کو کوئی چیز روک نہیں سکتی۔
مستقبل کے حوالے سے ہدیٰ کا وژن بھی صاف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نئی نسل کو متاثر کرنا چاہتی ہوں۔ اسمارٹ نسل کو صرف اپنے آلات تک محدود نہیں ہونا چاہیے، ہاتھ سے کام کرنے کی مہارتیں بھی ضروری ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ میں اس پیشے کو جدید بنانا چاہتی ہوں، جسے روایتی سمجھا جاتا ہے، اور لوگوں کو سکھانا چاہتی ہوں کہ اگر گاڑی خراب ہو جائے تو اسے کیسے ٹھیک کریں بجائے اس کے کہ اسے گیراج چھوڑ جائیں ۔





