کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے جب ہم دنبوں اور بکریوں پر مشتمل ریوڑ کے ساتھ بلوچستان کے علاقہ لورالائی کے ایک دوردراز گاؤں سے پنجاب میں روزگار کیلئے پہنچے تھے۔ پنجاب میں ہم نے کئی ٹھکانے بدلے، جہاں روزی ملتی وہیں بسیرا کرلیتے۔ بالآخر ضلع وہاڑی کے گاؤں کوٹ ساون میں سر چھپانے کا آسرا ہوا تو پورا خاندان یہیں بسنے لگا۔
غربت نے ہر سو اپنے پر پھیلائے ہوئے تھے، حالات کے جبر نے والد صاحب مرحوم کو ہر فن مولا بنا دیا تھا، گھر کی کوئی دیوار گرتی تو خود بنا لیتے، والدہ بلوچستان ننھیال چلی جاتیں تو پورا پورا مہینہ کھانا پکا کر کھلاتے، کسی نے جانور ذبح کرانا ہوتا تو والد صاحب کی خدمات حاصل کرتے۔ لوگ مرغیاں بغل میں دبائے آ جاتے کہ اسے حلال کر دیں۔
والد صاحب مرحوم اپنے اور ہمارے جوتے خود مرمت کر لیتے اور جب ہمیں حجامت کی ضرورت ہوتی تو سب بھائیوں کے سر پر موجود جھاڑ جھنکار کا مکمل صفایا کر دیتے، دنبوں کے بالوں کی کترائی اور ہمارے بالوں کی صفائی کا فریضہ ایک ہی قینچی سرانجام دیتی۔
اس عجیب و غریب سر کے ساتھ جب ہم گاؤں میں گھومتے تو تمام بڑے چھوٹے ’ٹھونگے مارتے‘ چاں چاں نامی پرندہ اور انڈوں، بچوں والے کوے بھی چونچ مارتے۔ اسکول میں بچے ہنستے کہ دیکھو پٹھان کی لکیردار ٹنڈ۔ ہمارا سر ریگستان میں ریت کے ٹیلوں جیسا لہردار ہوتا تھا، کہیں سے اوپر، کہیں سے نیچے۔
اس وقت ہماری بڑی خواہشات میں سے ایک خواہش کسی بھی نائی سے اسٹائلش بال بنوانے کی تھی جو برسوں اس لیے تشنہ رہی کہ جیب اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
ہمارے باقی دوست اپنے ’سیپی حجام‘ کے پاس بال بنوانے جاتے تو ہم بھی ساتھ چلے جاتے کہ شاید حجام کو ہم پہ ترس آئے اور ہم قینچی کی ستم ظریفی سے محفوظ رہیں مگر اپنے ننھے دوستوں کی سفارش کے باوجود حجام کا دل کبھی نہیں پسیجتا تھا۔
قسمت کی ستم ظریفی مسلسل طاق میں رہی اور اس وقت بھی ہمیں نہ بخشا جب ہم نے پہلی بار حجام کے پاس بال بنوانے کی سکت حاصل کر لی۔ جیب میں کھنکتے سکوں کو تھپتھپاتے، دل کی دھڑکنوں کو سنبھالتے اور ایک انوکھی مسرت سے سرشار ہم ساتھ والے گاؤں میں وِکی حجام کی دکان پر پہنچ گئے۔ اس وقت یہاں کی علاقائی زبان سرائیکی، پنجابی کی سمجھ پوری طرح تھی مگر بولنے میں کچھ مسائل تھے۔ الفاظ گڑبڑ ہو جاتے تھے۔
جب حجامت بنانے کی باری آ چکی تو وکی نے پوچھا،”ہاں مڑا،آپ کا کیا کام کرنا ہے؟“ میں نے بڑی کوشش سے پشتو کے الفاظ کو سرائیکی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے بالوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ”میں سر کٹاونڑیں“ مطلب ”میں نے سر کٹانا ہے“۔ وکی کو اب تک وہ فقرہ نہیں بھولا جس نے حمام میں موجود سب لوگوں کو ہنسا ہنسا کر پاگل کر دیا تھا، قسمت کا یہ وار لوگوں کے ٹھونگوں سے بھی کاری تھا۔
وہ ایک بھلا اور حسین وقت تھا جسے میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ اکثر یاد کرتا ہوں۔ وہ ان پیارے وقتوں کے چشم دید گواہ ہیں جب والد صاحب کی قینچی کے سامنے دنبوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی سر جھکائے بیٹھے ہوتے تھے، یہ معصوم جانور تو پھر بھی ان لمحات میں کچھ اٹکھیلیاں کر لیا کرتے تھے، ہمیں تو اس کا بھی اذن نہیں حاصل تھا۔
وقت بھی بدل گیا، حالات بھی بدل گئے اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ جو ہیئر اسٹایل برسوں تک صرف دنبوں اور ہمارے تک محدود تھا، اب وہ دنیا بھر کے مقبول ترین اسٹائلز کی صورت ہر حجام کی دکان پر دمک رہا ہوتا ہے۔
2012 میں جب ہم یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے تو ایک کلاس فیلو نے بعینہ ہمارے بچپن جیسی لکیردار ہیئر کٹ بنوائی اور قسمت ایک بار پھر ہمارے اوپر مسکرانے لگی کیونکہ اس لڑکے نےایک سخت گیر استاد سے داد وصول پائی حالانکہ اسی تجربے کے بعد ہمارے نصیب میں مسکراتی نظریں، طنزیہ کھسر پھسر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سر پر ٹھنگے پڑا کرتے تھے۔
آج کورونا وبا کے دوران گھر پر چھوٹے بھائی نیامت خان کی منت سماجت کر کے لگ بھگ دو دہائیوں بعد سر کے بالوں کا صفایا کرایا تو بیس برس پرانا وقت یاد آگیا جب ہم بھائیوں کے لیے یہ روٹین کی بات تھی۔
کوئی دو برس پہلے اسلام آباد کی سپرمارکیٹ میں چند غیر ملکیوں کو لکیر دار ہیئراسٹائل کے ساتھ دیکھا تو والد صاحب کی قینچی بھی یاد آئی اور ان کی دوراندیشی کو بھی سراہنے کو دل چاہا، سوچا یہ اسٹائل تو ہم برسوں قبل بھگتا چکے۔ اب دنیا کے بھگتنے کا وقت ہے۔
ماشااللہ قسمت خان صرف تحقیق میں ہی طاق نہیں، لفظ کو بھرتنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ خاد او اباد دِ وی.
ماشااللہ بہت عمدہ تحریر خان صاحب۔
زبردست خان صاحب ۔ سرائیکی وسیب میں اپنے مزید تجربات بھی قلم بند کریں ۔