صدر پاکستان عارف علوی نے کہا کہ ملکی خزانہ لوٹنے والوں سے نہ ہی رقم واپس لائی جا سکی ہے اور نہ ہی انہیں سزا مل سکی ہے۔
اے آر وائی کے پروگرام "دی رپورٹر” میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب ہماری حکومت آئی تو خزانہ خالی تھا اور بہت دباؤ تھا، یہ فیصلہ کرنے میں بھی تاخیر ہوئی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے یا نہیں، فیصلے میں دیر کرنے سے بھی معیشت متاثر ہوئی۔
ملک لوٹنے والوں سے پیسہ وصول نہیں کر سکے
صدر پاکستان عارف علوی سے سوال کیا گیا کہ پی ٹی آئی کا ماڈل کرپشن کا خاتمہ کرنا تھا، بڑ ے مگرمچھوں کو پکڑنا تھا مگر لگتا ہے کہ ملک میں رائج نظام نے کوئی معاونت نہیں کی۔
عارف علوی نے جواب میں اعتراف کیا کہ جو لوگ پاکستان کا پیسہ لوٹ کر جا چکے ہیں نہ ان سے رقم واپس آئی ہے اور نہ ہی انہیں سزا مل سکی، اس وجہ سے لوگوں میں ڈر بھی پیدا نہیں ہوا۔
صدر پاکستان نے مزید کہا کہ کرپشن سب سے بری بات ہے۔ یہ گھن کی طرح کھا جاتی ہے۔
عارف علوی نے کہا ہم تعلیم اور صحت پر زور دیتے تھے مگر جب سروے کرائے جاتے تھے تو عوام مہنگائی میں کمی اور نوکریوں کی بات کرتی تھی۔
کیا عمران خان کو جہانگیر ترین اقتدار میں لائے؟
ان سے سوال کیا گیا کہ چینی اور آٹے کے اسکینڈل پر بہت شور اٹھ رہا ہے اور جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔ اب جہانگیر ترین ٹی وی پروگرامز میں آ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں عمران خان کے گلے میں وزارت عظمیٰ کی مالا انہوں نے پہنائی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 60 فیصد ایم این ایز اور پنجاب کے ایم پی ایز کو وہ توڑ کر پارٹی میں لائے ہیں، آپ اس تنازعہ کو کیسے دیکھتے ہیں؟
عارف علوی نے جواب دیا کہ پارٹی میں جتنے بھی پارلیمنٹرینز ہوتے ہیں وہ سب دوسروں کو پارٹی میں لانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب لوگ کہتے تھے کہ پی ٹی آئی تو ایک تانگے میں پوری آ جائے گی تب بھی میں لوگوں کو پارٹی میں لانے کی کوشش کرتا رہا اور بہت سے لوگوں کو لایا بھی۔
عارف علوی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین بھی لوگوں کو لائے ہیں تاہم اگر انہوں نے ایسا کچھ کہا ہے کہ وہ حکومت کو مشکلات میں لا سکتے ہیں تو یہ غیر مناسب بات ہے۔
پارٹی کا رہنما ایک ہی ہوتا ہے اور جن لوگوں کو پارٹی میں شامل کرایا جاتا ہے ان کی وفاداری اسی کے ساتھ بنتی ہے۔
شوگر ملز اسکینڈل: کیا حکومت کو خطرہ ہے؟
صدر پاکستان سے سوال کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے چینی اور آٹے پر تحقیقات کرائیں اور پھر ان کو پبلک بھی کردیا، کیا ایسا کرنے سے حکومت کو کوئی خطرہ محسوس ہو رہا ہے؟
عارف علوی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی خطرہ نہیں، جہانگیر ترین نے خود کہا ہے کہ اس رپورٹ کے حوالے سے مزید وضاحتیں آئیں گی اور جب فرانزک رپورٹ آئے گی تو اور کچھ آئے گا۔
صدر پاکستان نے کہا کہ رپورٹ کو پبلک کرنا بہت ضروری تھا، جس چیز پر ڈھکن رہتا ہے اس میں بو پھیل جاتی ہے، فرانزک رپورٹ آنے دیں۔
عارف علوی نے کہا کہ ہماری حکومت اپاہج نہیں ہے، بہت کچھ کر سکتی ہے، آپ حالیہ رپورٹ کو ہی دیکھ لیں، اسے پبلک اسی لیے کیا گیا ہے کہ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کیا ہو رہا ہے۔
سخت لاک ڈاؤن کا حامی تھا
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سخت لاک ڈاؤن کے حامی مگر وزیر اعظم اس کے خلاف تھے کیونکہ وہ غریبوں کا سوچتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے خود کو غریبوں کی جگہ رکھ کر سوچا کہ میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تو میں یہ فیصلہ کروں گا کہ میرا بچہ بھوک سے نہ مرے، میں کورونا کا خطرہ مول لے لوں گا۔
عارف علوی نے کہا کہ کورونا کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ جب اس مشکل سے نکلیں گے تو ہمارا نظام صحت بہت بہتر ہو چکا ہو گا اور قوم ایک ہو چکی ہو گی۔
عثمان بزدار کیسا کام کر رہے ہیں؟
صدر پاکستان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے حوالے سے پنجاب کی بہترین تیاری ہے کیونکہ میں نے لاہور میں جا کر دیکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی اور صوبہ کے ساتھ موازنہ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ وہ کہیں اور نہیں گئے ہیں۔
کیا عارف علوی صدر بننے کے خواہشمند تھے؟
عارف علوی سے سوال کیا گیا کہ ایوان صدر میں آپ کام بھی کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب میں ہنس کر کہا کہ میں تو بہت فنکشنل ہوں۔
عارف علوی نے کہا ہے کہ جب انہیں صدر پاکستان بنایا جا رہا تھا تو انہوں نے نہ ایسا سوچا تھا اور نہ ہی ایسی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دوستوں نے جو اس وقت وزیر بھی ہیں کہا تھا کہ تین ماہ کے بعد تم بال نوچ رہے ہو گے کیونکہ وہاں کرنے کو کوئی کام نہیں ہے مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں کرنے کے لیے بہت کام ہے۔
صابر شاکر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جب فضل الٰہی صدر تھے تو باہر لکھا ہوتا تھا کہ مجھے رہا کریں۔
عارف علوی نے کہا کہ یہاں کا مزاح سوشل میڈیا نے خوب بڑھایا ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ صدر کو دھوپ لگوانے کے لیے باہر نکالا جاتا ہے۔
صدر پاکستان کی مصروفیات کیا ہیں؟
صدر پاکستان نے کہا کہ ان کے اوپر بہت ساری ذمہ داریاں ہیں جو انہیں پسند ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو کام دیے ہیں، ایک آئی ٹی کی ٹاسک فورس ہے جس کا میں چیئرمین ہوں دوسرے آبادی کے حوالے سے انہوں نے ذمہ داریاں سونپی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ 25 مختلف یونیورسٹیوں کے بھی چانسلر ہیں اور معذوروں کے حوالے سے بھی کام کر رہے ہیں۔
(صدر پاکستان کا انٹرویو اے آر وائی کے پروگرام ”دی رپورٹر“میں نشر ہوا ہے)