ڈاکٹر ظفر الطاف کے چار مرشد ان گرامی ڈاکٹر اجمل، ڈاکٹر طارق صدیقی، ایس۔کے محمود اور عبدالحفیظ کاردار کے چھوٹے موٹے قصے
( تین اقساط کی دوسری قسط)
یاد دہانی کے لیے جتا دیں کہ پہلی قسط میں نصف دوریش کی زندگی سے جڑے ڈاکٹر اجمل، ڈاکٹر طارق صدیقی جیسے درویشوں کے قصے بیان ہوئے تھے۔ ایس کے محمود اس سلسلے کے تیسرے درویش تھے۔ اب سول سروس کا نام آتا ہے تو لوگ ان پر تبرہ بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کو سول سروس سے بہت خاص مخاصمت تھی، انہوں نے اس کا بیڑہ 1973 کی ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کے ذریعے غرق کر دیا تھا۔ کہیں سے کوٹہ سسٹم کے تحت امتحان میں صوبائی نمائندگی کے نام پر فیل امیدواران تو کہیں لیٹرل انٹری کے تحت دامادوں، سالوں، بہنوئیوں اور سیاسی کاسہ لیسوں کی ایک بڑی تعداد کو اس میں شامل کر دیا گیا تھا ورنہ یہ سول سروس پہلے ایسی نہ تھی۔
قرۃالعین حیدر جیسی ادیبہ بقول شاہد احمد دہلوی اس کے ایک ممبر قدرت اللہ شہاب کے پیچھے خوار تھیں۔ ان کی شادی کی پیشکش کو شہاب صاحب مسلسل ویسے ہی ٹھکراتے رہتے تھے جیسے انہوں نے کبھی شہاب صاحب کو پستہ قد اور پینڈو کہہ کر ٹھکرایا تھا۔ اسی باوقار خانوادے سے کبھی گورنر تو کبھی چیف جسٹس بھی چنے جاتے تھے۔ دو وزیر اعظم اور ایک صدر یعنی چوہدری محمد علی، اسکندر مرزا اور غلام اسحق خان بھی پہلے فیڈرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ اختر حسین، میاں امین الدین، خان قربان اور جسٹس دین محمد چاروں گورنر رہے۔ یہی نہیں سپریم کورٹ کے چار چیف جسٹس محمد شہاب الدین(1960), اے آر کانیلیس(1960-68)، ایس اے رحمان(1968) اور بھٹو کو پھانسی دیتے وقت اپنا ووٹ سرکار کے پلڑے میں ڈالنے والے شیخ انوار الحق (1977-81) چاروں پہلے آئی سی ایس افسر ہوا کرتے تھے۔
سید خالد محمود یعنی ایس کے محمود اسی خانوادہء افسراں کے روشن چراغ تھے۔ 1966 میں کراچی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں کراچی میں ڈپٹی کمشنر ایک ہوا کرتا تھا اور اسسٹنٹ کمشنر دو۔ ڈاکٹر صاحب سب ڈویژنل مجسٹریٹ سول لائنز ہوتے تھے۔ ان کی راجدھانی پورٹ سے لانڈھی تک پھیلی ہوئی ہوتی۔ اصحاب المشمہ والا حصہ۔ ایس کے محمود کتنے بے نیاز و شہرت سے پرے رہنے والے انسان تھے کہ ان کی کوئی تصویر نیٹ پر بھی دستیاب نہیں۔ اگر کسی کے پاس موجود ہو تو وہ ہمیں اور نقار خانہ کو ضرور ارسال کرے۔
ڈاکٹر صاحب کے پاس سرکاری کار نہ ہوتی تھی۔ البتہ انہیں چارج سنبھالنے کے وقت لاہور سے آمد کے کینٹ اسٹیشن پر آنے والا ایک ماتحت پیش کار مجید اپنی کار میں آیا تھا۔ ہم جب سٹی کورٹ میں بطور سب ڈویژنل مجسٹریٹ سٹی (لیاری) اپنا دفتر جماتے تھے تو یہی مجید ہمارا بھی پیش کار تھا۔ اپنی اسسٹنٹ کمشنری کے دنوں میں سن ساٹھ کی ایک پرانی ٹرائمف لہرا کر پھرتے تھے۔ کولمبس ٹاؤرز کے پیچھے تین تلوار کے ساتھ ہی حلیمہ کورٹ میں رہائش تھی۔ اس وقت شادی نہ ہوئی تھی۔ ان کے جگری دوست شیخ صاحب جو اس وقت لندن میں صاحب فراش ہیں وہ بتاتے ہیں ایک گرل فرینڈ شام کو اکثر پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوتی تھی۔ بال ہوا میں اڑتے رہتے تھے۔ دوست دہلی کے مہاجر ہیں۔ ہم نے پوچھا حسین تھی تو کہنے لگے چار دن گدھی پر بھی آتے ہیں۔ یوں سمجھ لو اس پر تین چار دن اور بھی آ گئے تھے۔ ہم نے پوچھا آپ کو کیسے پتہ تو کہنے لگے اے لو ہم ساتھ ہوتے تھے۔ میری ہارلے ڈیوڈسن پر وہ ہوتی تھی۔ انہوں نے ایک مشہور گلوکارہ کی والدہ کا نام لیا جس کی سفارش پر ایک سینئر بیوروکریٹ کو ایک سندھی وزیر اعظم نے معافی دی۔ اس وقت برنس روڈ پر رہتی تھیں۔
افسری سے جو فالتو وقت ملے وہ ایس کے محمود صاحب کا آرڈر تھا کہ ڈاکٹر صاحب نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلتے ہوئے دکھائی دینے چاہیئں۔
No partying for a bachelor
حلیمہ کورٹ میں خادم میراں بخش کے لیے اسٹینڈنگ آرڈر یہ تھے کہ ایک زندہ مرغی ہر وقت اس میں مہمانوں کے لیے موجود ہو۔ فلیٹ کا دروازہ بند نہ ہو۔
ہم نے ڈاکٹر ظفر الطاف سے پوچھ لیا کہ آپ تو مری کے ایڈیشنل کمشنر تھے یہاں کراچی سول لائنز کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے طور پر کیسے لینڈ کیا۔
کہنے لگے وہ تمہارا ایک حرامی گجراتی سیٹھ تھا۔ اس سے سینگ اڑا لیے تھے۔ میں ایک صبح مری اپنے دفتر پہنچا تو روئی روئی سی ایک جواں سال عورت بیٹھی تھی۔ پتہ چلا کہ ایئر ہوسٹس ہے۔ سیٹھ نے ہی نوکری دلوائی تھی۔ سلپ (فلائینگ عملے کے دوسرے اسٹیشن پر قیام کو کہتے ہیں جس میں انہیں ہوٹل وغیرہ کی سہولت ہوتی ہے) دلوا کر اسے مری لے آیا تھا۔ رات کچھ ان بن ہو گئی تو اسے مارا بھی تھا اور ایک جگہ کاندھے کے پاس سگریٹ سے جلانے کے داغ تھے۔ میں نے سیٹھ کو اس سے درخواست لے کر 107/117/151 Cr.PC میں بند کر دیا۔ ایک ہنگامہ مچا۔ جنرل ایوب کا دور تھا۔ سیٹھ کا صدر صاحب سے بڑا یارانہ تھا۔ میرے ڈپٹی کمشنر پنڈی احمد صادق کو خبر مل گئی کہ میرے خلاف کارروائی ہونے والی ہے تو ایس۔کے محمود کو فون کیا۔ انہوں نے کہا میرے پاس بھیج دو۔ سول لائنز سب ڈویژن کل خالی ہوا ہے۔
ہم نے کہا کہ یہاں سے دیناج پور مشرقی پاکستان کیسے پہنچے۔ کہنے لگے ایک دن ایس۔کے محمود کے کراچی جم خانہ والے دفتر کے باہر اصفہانی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ہڑتالی ملازم پہنچ گئے، انہیں تنخواہ ادا نہیں کی جارہی تھی۔
ہم بتادیں کہ اصفہانی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک جناح صاحب کے دست راست مرزا ابوالاصفہانی کے صاحبزادے محمد اسکندر اصفہانی (Isky Isphani) تھے جو حسین حقانی کی بیگم فرح ناز اصفہانی کے والد تھے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ ان کے دان کیے ہوئے گھر میں قائم ہے۔ اصفہانی گروپ آف کمپنیز کا شمار ایوب خان کے زمانے کے بائیس مالدار ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ داؤد، آدمجی، باوانی، سہگل، فینسی علوی، حبیب گوکل اور ڈوسل کی کیٹگری کے محمد اسکندر اصفہانی اسی ایم ایم اصفہانی گروپ کے چیئرمن تھے۔ بازار میں بات چل رہی تھی کہ بنک سے قرضہ کا کچھ چکر چل رہا ہے۔ اب کمپنی کو کنگال قرار دے کر قرضہ ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔
انہیں ڈاکٹر صاحب نے ایس ایچ او سول لائنز کو بھیج کر سندھ کلب سے بلوا لیا۔ وہ انکاری ہوئے تو ایس کے محمود نے حکم دیا کہ اگر تین گھنٹے کے اندر ان ملازمین کی تنخواہ ادا نہ ہوئی تو ڈاکٹر صاحب انہیں ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت بند کر دیں۔ ایسا ہی ہوا۔ شہر میں ایک بھونچال آ گیا۔ ایک گھنٹے کے اندر ایس کے محمود کو وزیر خزانہ مسعود صادق کی کال آ گئی کہ یہ کون کاروبار دشمن افسر ہے جو مری میں ہوتا ہے تو ایک کال گرل کے کہنے پر ایک بڑے سیٹھ کو لاک اپ میں ڈال دیتا ہے۔ کراچی بھیجو تو ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کی فرمائش پر پاکستان کی خاطر عظیم قربانیاں دینے والوں کی پگڑی سر عام اچھالتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ چند اجلاسوں میں جناح صاحب کے ساتھ جو بھی دس بارہ بڑے نام نظر آتے ہیں وہ سب کے سب خود کو پاکستان کی خاطر عظیم قربانی دینے والے سمجھتے تھے۔ تمہارے بڑوں کی طرح ہوائی جہاز میں خود آئے اور گھر کا سارا سامان اچار کی برنیوں سمیت سمندری جہاز سے ممبئی پورٹ سے بھیجا۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو دونوں ہاتھوں سے پرمٹ اور قرضے حاصل کر کے کھا جاتے تھے۔ امپورٹ میں ڈیوٹیاں معاف کراتے تھے اور مجال ہے پورا ٹیکس دیتے ہوں۔ پاکستان میں انہی گھرانوں نے سب سے زیادہ لوٹ مار مچائی۔
وزیر خزانہ مسعود صادق افسر کو معطل کرنے اور ایم ایم اصفہانی کو رہا کرنے کو کہا۔ یہ سننا تھا کہ ایس کے محمود دھاڑے اور انگریزی میں کہا کہ آپ کی ہمت کیسے ہوئی کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر لا اینڈ آرڈر کے معاملات میں مداخلت کریں؟ آپ کا کام اپنی وزارت خزانہ تک محدود ہے۔ ہمارا فیصلہ غلط ہے تو اپنے چہیتوں کو کہیں ہمیں ہائی کورٹ میں ہرجانے اور ہتک کے دعووں میں گھسیٹ لیں۔ کمپنی کی جانب سے تین گھنٹے کے اندر تنخواہیں ادا ہو گئیں۔ اگلے دن اصفہانی صاحب کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔۔
چند دنوں میں میرا ٹرانسفر دیناج پور مشرقی پاکستان ہو گیا اور میرے دو ماہ بعد ایس کے محمود پنجاب چلے گئے۔
ہم نے چھیڑا کہ وہ بھٹو سے پہلے کی بیوروکریسی بہت مضبوط تھی۔ کہنے لگے ’ڈونٹ بھی سلی‘۔ ایوب خان نے ایک سو افسر نکالے تھے۔ جنرل یحییٰ نے مارشل لا کے سہارے 303 اور بھٹو نے چن چن کر بطور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر 1425 سول سرونٹس نکال باہر کر دیے۔ اس کا تعلق کردار اور جرات سے ہے۔
جس وقت لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ سنایا اس وقت ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے عارضی سیکرٹری کا چارج ایس کے محمود کے پاس تھا۔ وہ اس وقت ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ چاہتے تو بہت خاموشی سے فیصلے کی سمری اپنے نوٹ کے ساتھ گورنر جنرل سوار خان کو بھیج سکتے تھے۔ انہوں نے اپنی سمجھ اور ضمیر کی آواز پر سمری میں لکھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ متعصب اور انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں اڑاتا ہے، ہوم ڈیپارٹمنٹ کو اجازت دی جائے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرے۔
جنرل سوار خان کو علم تھا کہ بھٹو کو ہر حال میں پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ ایس ۔ کے کو بلا کر جنرل سوار خان نے یہ بات سمجھائی کہ وہ چاہیں تو سمری واپس لے جائیں اور بدل لیں۔ اپنی گردن نہ پھنسائیں۔ وہ نہ مانے۔ سمری ویسی کی ویسی ہی کورنگ خط کے ساتھ جنرل ضیا کو بھیج دی گئی۔ وہاں کہرام برپا ہو گیا۔ ایس کے محمود بہت عرصے راندہ درگاہ رہے۔ بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو انہیں پہلے سیکرٹری اور پھر آڈیٹر جنرل آف پاکستان لگا دیا۔ ایسے افسر اب کہاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اقبال دیوان چار عدد کتب کے مصنف ہیں جسے رات لے اڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا، پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ، دیوار گریہ کے آس پاس۔ پانچویں کتاب ”چارہ گر ہیں بے اثر“ ان دنوں ادارہ قوسین کے ہاں زیرطبع ہے۔ آپ کے کالمز وجود، دلیل،دیدبان اور مکالمہ پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ سابق بیورکریٹ ہیں۔
what courage, and what status, those people who maintained it, with all the dignity of their service life and cadre.
ایس کے محمود دھاڑے اور انگریزی میں کہا کہ آپ کی ہمت کیسے ہوئی کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر لا اینڈ آرڈر کے معاملات میں مداخلت کریں؟ آپ کا کام اپنی وزارت خزانہ تک محدود ہے۔ ہمارا فیصلہ غلط ہے تو اپنے چہیتوں کو کہیں ہمیں ہائی کورٹ میں ہرجانے اور ہتک کے دعووں میں گھسیٹ لیں
Hats Off!!!
ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ چند اجلاسوں میں جناح صاحب کے ساتھ جو بھی دس بارہ بڑے نام نظر آتے ہیں وہ سب کے سب خود کو پاکستان کی خاطر عظیم قربانی دینے والے سمجھتے تھے۔ تمہارے بڑوں کی طرح ہوائی جہاز میں خود آئے اور گھر کا سارا سامان اچار کی برنیوں سمیت سمندری جہاز سے ممبئی پورٹ سے بھیجا۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو دونوں ہاتھوں سے پرمٹ اور قرضے حاصل کر کے کھا جاتے تھے۔ امپورٹ میں ڈیوٹیاں معاف کراتے تھے اور مجال ہے پورا ٹیکس دیتے ہوں۔ پاکستان میں انہی گھرانوں نے سب سے زیادہ لوٹ مار مچائی۔..this the fact