سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے یوٹیوب چینل میں انکشاف کیا ہے کہ کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے سامنے وزراء کی ایک دوسرے کے ساتھ تلخ کلامی ہو گئی۔ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم کے اختیارات سے تجاوز اور دوسری وزارتوں میں مداخلت پر بھی بات ہوئی، اسی طرح انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی بے باک اندازمیں سمریوں کو مرضی کے بغیر منظور کرنے کے معاملے پر شکایات کیں۔
رؤف کلاسرہ نے اپنے یو ٹیوب وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ کابینہ کی تشکیل کردہ قانون ساز کمیٹی کے سربراہ فروغ نسیم کے سامنے دستاویزات پیش کی جاتی ہیں اور ان کی منظوری کے بعد وہ سمریاں سفارشات سمیت کابینہ میں پیش کی جاتی ہیں جس پر وزراء نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم سے شکایت کی کہ وزارتیں ہمارے پاس ہیں اور فیصلے فروغ نسیم کر رہے ہیں۔
رؤف کلاسرا کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے روات میں انسٹی ٹیوٹ کے لیے چارٹر کے حوالے سے شکایت کی کہ فروغ نسیم نے اس حوالے سے سفارشات دے دی ہیں جبکہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وزارت میرے پاس ہے اور پروپوزل، ایس او پیز اور دیگر معاملا ت کا تعین کرنا میرا کام ہے۔ ان کا کام صرف قانونی پہلو دیکھنا ہے مگر یہ خود فیصلے کرنے بیٹھ گئے ہیں اور معاملہ کابینہ میں ہی لے آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے شفقت محمود کے تحفظات کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اور ایجنڈا جو پاکستان بانڈز کے حوالے سے تھا کابینہ کے سامنے رکھا گیا۔ مذکورہ ایجنڈا حفیظ شیخ کی وزارت کے حوالے سے تھا مگر اس میں بھی فروغ نسیم نے ردو بدل کر رکھا تھا۔
ذرائع کے مطابق حفیظ شیخ سفارشات دیکھتے ہی فروغ نسیم کے ساتھ الجھ پڑے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کام دوسری وزارتوں کے معاملات پر فیصلے کرنا نہیں ہے آپکی کمیٹی نے صرف قانونی پہلو دیکھنے ہیں یا اعتراض لگا کر معاملہ واپس وزارت کو بھجوا دینا ہے۔
وی لاگ میں موجود سینیئر صحافی عامر متین نے کہا کہ ایک طرف وزارت قانون کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہی، جی آئی ڈی سی کیس میں وزارت نے قانونی رائے دینی تھی جو انہوں نے نہیں دی، اپنا کام نہیں کر رہے مگر جہاں ان کا کام نہیں وہاں مداخلت کر رہے ہیں۔ رؤف کلاسرہ نے کہا کہ جب 417 ارب روپے کا معاملہ چل رہا تھا اس وقت فروغ نسیم غائب تھے، وہ کہیں نظر آئے اور نہ ہی وہ معاملہ قانون سازی کی کمیٹی میں لے گئے۔
انہوں نے کابینہ کی مزید اندرونی کہانی بتاتے ہوئے شفقت محمود اور وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کے درمیان ہونے والی تند و تیز گفتگو کا بھی بتایا۔
انہوں نے کہا کہ فواد چودھری پاکستان میں جو چیزیں آتی ہیں ان کا معیار بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ کابینہ میں انہوں نے 61 کے قریب آئیٹمز کا معیار بہتر کرنے کی بات کی تو شفقت محمود نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سے موجودہ آئٹمز پر بنائے گئے کوالٹی سٹینڈرڈز پر عمل درآمد ہو گیا ہے کہ اب نئے آئٹمز آ گئے؟
بعض وزراء نے کہا کہ تاخیری حربے شروع ہو جائیں گے اور اسی بہانے بیوروکریسی کرپشن شروع کر دے گی جس پر ذرائع کے مطابق فواد چودھری نے کہا کہ ہم آٹومیشن کی طرف چلے گئے ہیں اور کوشش ہے کہ افراد کا عمل دخل کم سے کم ہو۔
رؤف کلاسرہ کے مطابق کابینہ میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری بھی خوب بولیں اور کہا کہ نیا کلچر ہے کہ سمریاں سفارشات کے ساتھ آ جاتی ہیں اور ہم سے منظوری لے لی جاتی ہے یہ طرز ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔
انہوں نے کابینہ میں سوال اٹھایا کہ سمریوں پر ہمارے تحفظات کو کیسے دور کیا جاتا ہے؟ کابینہ کے سیکریٹری احمد نواز سکھیرا نے بتایا کہ تمام تر دستاویزات اور تحفظات وزیر اعظم صاحب کو بھیجی جاتی ہیں اور پھر فیصلہ لیا جاتا ہے تاہم شیریں مزاری کا اصرار یہ تھا کہ بتایا جائے تحفظات پر ہونے والے فیصلوں کا ہمیں کیوں نہیں بتایا جاتا؟
رؤف کلاسرہ کے مطابق یہ انتہائی سنجیدہ بات ہے کہ وزیر سے منظوری تو لی جا رہی ہے مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ فیصلوں کے متعلق ان کی آبزرویشن یا تحفظات کا کیا بنا۔