سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں نے آج تک نہیں سنا کہ کسی بھائی نے اپنی بہن کو زمین گفٹ کی ہو، بھائی تو خوش ہوتے ہیں کہ ان کو جائیداد میں دگنا حصہ مل رہا ہے۔
57 کنال اراضی کے انتقال کے کیس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔
عدالت نے درخواست گزار عبدالحئی کی درخواست خارج کردی تاہم جسٹس قاضی فائز عیسی ریمارکس دیے کہ پتا نہیں اس ملک میں لوگ شریعت سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں، ٰکوئی شریعت کے مطابق بہنوں کو حصہ نہیں دینا چاہتا۔
کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل رفاقت حسین شاہ نے عدالت کو بتایا کہ تحصیلدار نے خود کہا کہ عورت چل کر اس کے پاس بیان دینے آئی تھی جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ تحصیلدار نوکری سے جائے تو آگے چلتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ 9 سال پہلے کا واقعہ تھا، تحصیلدار کو کیسے یاد رہا، تحصیلدار کے دستخط تھے، اس لیے اس نے اقرار کرلیا، یہ تو معجزہ کی بات ہے کہ 9 سال پرانی بات اسے یاد رہی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر وہ روزانہ 10 سے 20 کیسز بھی کرتا ہو گا تو اسے کیسے یاد رہا کہ یہ وہی خاتون ہے۔ بعدازاں عدالت نے زمین کے انتقال کے تنازعہ سے متعلق درخواست خارج کردی۔
1996 میں تلہ گنگ میں بہن نے والد کی وفات کے بعد اپنی 57 کنال اراضی اپنے اکلوتے بھائی کو گفٹ کی تھی، سول کورٹ نے گفٹ کو قانونی قرار دیا تھا جس کے بعد ڈسٹرکٹ کورٹ نے سول کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ڈگری کر دی تھی۔
بعد ازاں ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا جسے سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کر دی۔